بلاگ
Time 25 جولائی ، 2020

کورونا اور سونامی

فوٹو: فائل

کورونا ساری دنیا اور عام پاکستانی کے لئے مصیبت لیکن سونامی سرکار کے لئے غنیمت ثابت ہوا ہے۔ اس وبا نے ان کے اقتدار کا دورانیہ بڑھا دیا اور جب تک یہ وبا موجود ہے، سیاسی اور غیرسیاسی قوتوں کی طرف سے سونامی حکومت کےخلاف کوئی ایڈونچر نہیں ہوسکتا ۔

کورونا ایک وائرس ہے جو انسانی زندگیوں کے لئے خطرناک ہے اور پی ٹی آئی سونامی کے نعرے کے ساتھ بننے اور اقتدار میں آنے والی انسانوں پر مشتمل جماعت ہے لیکن اثرات اور نتائج کے حوالوں سے دونوں میں بعض مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں۔مثلا اس وقت کورونا دنیا پر راج کررہا ہے تو پی ٹی آئی کی سونامی پاکستان میں راج کررہی ہے۔

ماحولیات کے ساتھ جو سلوک حکومتوں اور انسانیت نے روا رکھا، اس کے انتقام اور ردعمل میں کورونا جیسی وبا قدرت کی طرف سے سامنے آئی ہے تودوسری طرف یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے انتقام اور ردعمل میں پی ٹی آئی کواقتدار دلوایا گیا۔کورونا ایک نیا وائرس تھا جس کی ڈاکٹروں اور ماہرین کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی اور آج تک اس کو سمجھنے کی کوشش جاری ہے۔

اسی طرح پی ٹی آئی کی حکومت بھی نئے اور منفرد جتھے پر مشتمل ہے ، جو پہلی مرتبہ اقتدار میں آئی ہے اور آج تک پاکستانی اور دنیا اس کی پالیسیوں اور ترجیحات کو سمجھ نہیں پارہے ۔کوروناکی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ شکل بدلتا اور میوٹیٹ کرتا رہتا ہے اور پی ٹی آئی حکومت کا بھی مسئلہ یہ ہے کہ وہ روز بروز نئی شکل اختیار کرتی رہتی ہے ۔ ایک دن جہانگیر ترین کی پالیسیاں چلتی ہیں ، دوسرے دن اسد عمر کی اور تیسرے دن زلفی بخاری کی۔

ایک دن وہ کنسٹرکشن انڈسٹری سے متعلق ایسی پالیسیاں بنادیتی ہے کہ یہ صنعت بیٹھ جاتی ہے اور دوسرے دن اس پر مراعات اور سہولیات کی بارش کردیتی ہے ۔ ایک دن کہتی ہے کہ کچھ بھی ہوجائے لیکن قرضہ نہیں لیں گے لیکن دوسرے دن ماضی کی حکومتوں سے زیادہ قرضہ لے لیتی ہے ۔ ایک دن پٹرول کی قیمتیں کم کردیتی اور دوسرے دن اس سے کئی گنا زیادہ بڑھا دیتی ہے ۔اسی طرح کورونا نے جو سلوک عالمی معیشت کے ساتھ کیا ، پی ٹی آئی کی سونامی نے وہی سلوک پاکستانی معیشت کے ساتھ کیا۔

کورونا ایک طبقے یعنی ضعیف لوگوں کے لئے موت کا پیغام ہے لیکن دوسرا طبقہ یعنی بچے اور صحت مند نوجوان اس کے شر سے بچے ہوئے ہیں ، اسی طرح پی ٹی آئی حکومت میڈیا اور اسی طرح کے کئی دیگر اداروں کے لئے تو موت کا پیغام ہے لیکن کچھ اداروں کو چھیڑنے کی بجائے مزید طاقتور بنا دیا۔ کورونا کے شر سے وہ لوگ بچے رہتے ہیں کہ جو بروقت ماسک اور سوشل ڈسٹینسنگ کی صورت میں حفاظتی انتظامات کرتے اور ڈاکٹروں سے بروقت رجوع کرلیتے ہیں جبکہ موجودہ حکومت بھی ان لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی جو بروقت پاکستان کے سیاسی ڈاکٹروں اور منیجرز کے ساتھ اپنے معاملات درست کرکے ان کی پناہ میں آگئے ہوں ۔

ہاں البتہ ایک فرق دونوں میں ضرور ہے کہ کورونا صرف جان کیلئے خطرہ ہے لیکن سونامی اپنے نقادوں اور سیاسی مخالفین کی عزت کے لئے خطرہ ہے۔ایک اور بنیادی فرق یہ ہے کہ کورونا چیختا چلاتا ہے اور نہ زبان چلاتا بلکہ خاموشی کے ساتھ ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہوتا اور اپناکام کرجاتا ہے لیکن پی ٹی آئی حکومت کے ترجمان اور وابستگان ایک لمحے کیلئے خاموش نہیں رہ سکتے ۔

وہ بولتے زیادہ اور کرتے کم ہیں اور سارا زور زبان کے استعمال پر رہتا ہے۔ تاہم اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پی ٹی آئی کے اقتدار نے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حوالوں سے پاکستان کو بدل کے رکھ دیا ہے جبکہ کورونا نے ان حوالوں سے پوری دنیا کو بدل کے رکھ دیا۔

کورونا اپنی جگہ جتنی بڑی آفت ہے سو ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں یہ ایک ایسےقالین کی شکل اختیار کر گیا ہے کہ جس کے نیچے حکومت نے بہت ساری آفتوں اور ناکامیوں کو چھپا رکھا ہے ۔ کورونا کے قالین نے جس اہم مسئلے کو ڈھانپ رکھا ہے وہ تباہ حال معیشت ہے ۔

کورونا سے قبل بھی نیب اور غیرمستقل پالیسیوں کی وجہ سے تبدیلی سرکار کے دور میں معیشت کا وہ حشر ہوگیا تھا کہ جی ڈی پی کی ترقی کی شرح پانچ اعشاریہ پانچ فی صد سے گرکر ایک فی صد تک آگئی تھی ۔ کورونا کے قالین تلے دوسرا اہم ترین مسئلہ کشمیر کا دب گیا ہے ۔

عمران خان کی ناتجربہ کار حکومت نے مودی کے ارادوں کا غلط اندازہ لگا کر ان سے اچھائی کی توقعات وابستہ کی تھیں اور پھر اس کے اوپر غلطی یہ کی کہ امریکی پوزیشن کا یکسر غلط اندازہ لگا کر ڈونلڈ ٹرمپ پر حد سے زیادہ اعتماد کیا۔ پھر جب نریندرمودی نے پورے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرکے جہنم بنا دیا تو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی بلکہ وہ مودی کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔

مقبوضہ کشمیر کے مظلوم اور جبر کے شکار حریت پسند گزشتہ اگست سے پاکستانی محمد بن قاسم عمران خان کی راہ تک رہے ہیں لیکن ان کی حکومت کے پاس مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو اس ظلم سے نجات دلانے کے لئے کوئی پالیسی اورروڈ میپ نہیں۔

کشمیر سے متعلق اس حکومت کی غیرسنجیدگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ایسے شخص کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا کہ جن کی غلط بیانیوں اور جھوٹی قسموں کی وجہ سے پاکستان میں بھی کوئی ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ۔ شاید پاکستانی تاریخ میں یہ پہلا موقع آیا ہے کہ کسی پاکستانی حکومت کے پاس کشمیر سے متعلق کوئی کاغذی روڈ میپ بھی نہیں ۔

لیکن یہ سنگین معاملہ بھی سردست کورونا کے قالین تلے دبا ہوا ہے اور جب یہ قالین اٹھے گا تو بجا طور پر پاکستانی عوام اور کشمیر ی یہ سوال اٹھائیں گے کہ جب مودی سرکار مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کررہی تھی تو پاکستانی حکومت کیا کررہی تھی۔

غرض کورونا ، موجودہ حکومت کے لئے ایک اچھا بہانہ ہاتھ آگیا ہے ۔ آپ معیشت کی تباہی کا سوال اٹھائیں تو جواب ملتا ہے کہ کورونا کی وجہ سے ۔ آپ بے روزگاری کا رونا روئیں تو جواب ملتا ہے کورونا کی وجہ سے ۔ آپ مہنگائی کا رونا روئیں تو جواب ملتا ہے کورونا کی وجہ سے ۔

آپ سوال اٹھائیں کہ سی پیک کا کیوں وہ حشر کیا گیا جو بی آر ٹی کا کیا گیا تو جواب ملتاہے کورونا ۔لیکن پھر جب آپ کورونا کے بارے میں سوال اٹھائیں تو حکومتی ترجمان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہماری کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان میں ہلاکتیں بھی کم ہوئیں، ان کے بقول معیشت کو بھی کم متاثر کیا گیا اور اب مسئلہ بھی قابو میں آگیا ہے۔

بھائی جب کورونا مسئلہ ہی نہیں تو پھر اس کی وجہ سے دیگر مسائل کیوں سنگین تر ہوتے جارہے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔