20 مارچ ، 2020
ہمارے شاعروں نے زبردست شاعری کی، انہوں نے ہجر اور وصال کے لمحوں کو خوبصورت لفظوں میں پرویا، کچھ نے حالات کی ستم ظریفیوں پر ماتم کیا، بعض نے زمانے کی کڑواہٹ لفظوں میں بیان کی، ہمارے کچھ شاعروں نے آنے والے حالات بتائے۔ کورونا کے موسم میں مجھے بشیر بدر کا شعر بہت یاد آ رہا ہے کہ؎
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے، ذرا فاصلے سے ملا کرو
اس وقت صرف کورونا کے مریض ہی خلوت خانوں کا شکار نہیں ہوئے، پوری دنیا اسیر ہوکے رہ گئی ہے، لوگ گلے ملنے سے گریزاں، ہاتھ ملانے سے ڈرتے ہیں، انسان، انسانوں سے دور بھاگتے ہیں۔ شاید ایسے ہی حالات کیلئے ہمارے کراچی کے جون ایلیا نے کہا تھا کہ
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
کورونا وائرس نے دنیا کے کئی ممالک بند کروا دیے ہیں، انسانی بستیاں، شہر خموشاں کا روپ دھار رہی ہیں، انسان گھروں میں قید ہیں، پرندوں کے غول فضائوں میں رقص کرتے نظر آ رہے ہیں، انسانوں کی بری عادتوں نے فضائوں کو گدلا کر دیا تھا، بڑے عرصے کے بعد پرندوں کو صاف ستھری ہوائیں نصیب ہوئی ہیں۔ اس موسم میں لوگ پرندوں کو شکار کرتے تھے۔
اب پرندوں کے شکاری خود کورونا کا شکار ہو گئے ہیں، کورونا کے خوف نے انہیں گھروں میں بٹھا دیا ہے۔ کورونا کے سامنے انسان بےبسی کی تصویر بن گئے، خلوت خانوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک ہی گھر کے افراد ایک دوسرے سے ملنے سے بھی گئے۔ میرے دوست میاں سہیل جیویکا کہتے ہیں ’’دل تو پہلے بھی نہیں ملتے تھے، ہاتھ ملانے سے بھی گئے‘‘۔
مسیحا مریضوں سے بھاگنے لگے، عجیب صورتحال ہے ہر طرف خوف ہی خوف ہے بقول ناصر بشیر؎
ناصر بشیر کس کی نظر گھر کو کھا گئی
سایہ سا بچھ گیا ہے مرے آنگن میں خوف کا
مجھے انسانوں کی اکثریت پر ہنسی آتی ہے، کس قدر بزدل ہیں، ان میں دلیری نام کی چیز ہی نہیں، میں تو نسلِ تیمور سے ہوں، میں تو خوف زدہ نہیں ہوتا، میرے اجداد نے ڈرنا سیکھا ہی نہیں تھا سو میں خوف کو اپنے نزدیک نہیں آنے دیتا۔ صرف ایک خوف ہے، اللّٰہ کا خوف وگرنہ کوئی اور خوف نہیں۔
انسان راہِ حق کو چھوڑ کر راہِ باطل پر چل پڑے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں کو راہِ راست دکھانے کے لئے پیغمبر بھیجے، کتابیں نازل کیں مگر انسان باغی ہوتے رہے۔ اللّٰہ نے آخری الہامی کتاب قرآن مجید نازل کی، یہی کتاب قیامت تک راہِ ہدایت ہے، انسانوں کو اپنی زندگیاں اس کتاب کے مطابق گزارنی چاہئیں۔
کورونا کو دیکھ کر مجھے قرآن سے اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان یاد آیا کہ ’’ہم ان کو قیامت کے بڑے عذاب سے پہلے دنیا کے عذاب کا بھی مزہ چکھائیں گے، شاید وہ ہماری طرف لوٹ آئیں۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون، جس کو اس کے پروردگار کی آیتوں سے نصیحت کی جائے تو وہ ان سے منہ پھیر لے۔
ہم گناہگاروں سے ضرور بدلہ لینے والے ہیں‘‘۔ اللّٰہ تعالیٰ نے آخری الہامی کتاب میں انسانوں کو بہت نصیحت کی ہے۔اللّٰہ کے آخری رسول حضرت محمدﷺ نے قیامت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جہالت عام ہو جائے گی، لوگ دنیاوی تعلیم یافتہ ہوں گے مگر دینی علم سے غافل ہوں گے، یہی جہالت ہو گی۔
خواتین و حضرات! کورونا سے خوف زدہ مسلمانوں کو دیکھتا ہوں تو رونا آتا ہے کہ یہ لوگ اپنے دین سے کتنے دور ہیں، کتنے ڈرپوک ہیں، موت سے کس قدر خوفزدہ ہیں، قیامت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے سب نبیوں کے سردار جناب محمد مصطفیٰﷺ فرماتے ہیں ’’مسلمان ہر عمل میں کفار کی تابعداری اور پیروی کریں گے۔ مسلمان مالدار ہوں گے مگر دیندار نہیں ہوں گے، اسلام پر عمل کرنے والوں پر لوگ تعجب کریں گے اور انہیں نیا سمجھیں گے، سود عام ہو جائے گا۔
کفار مسلمانوں پر غالب ہو جائیں گے، مسلمان زیادہ ہوں گے مگر غلام ہوں گے کیونکہ وہ دنیا سے محبت کریں گے اور موت سے ڈریں گے۔ ’’یہ سچ ہے کہ آج کا مسلمان دنیا سے محبت کرتا ہے اور موت سے ڈرتا ہے ورنہ مسلمان تو ایک ہی برتن میں کھا لیا کرتے تھے، ایک ہی برتن میں پی لیا کرتے تھے، زمین پر سو جاتے تھے، فطرت سے نہیں لڑتے تھے۔
صبح سویرے اٹھ جاتے تھے، سادگی ان کی زندگیوں کا حسن ہوا کرتا تھا مگر افسوس آج کے مسلمان پر جس نے عبادت گاہوں کو بھی بند کر دیا جس نے صفوں میں دوریاں پیدا کیں، جس نے مایوسیوں کو مزید پھیلایا، خاص طور پر مسلمان ملکوں کے حکمران تو بہت ہی بزدل نکلے ورنہ ہمارے رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’مصافحہ کرو اس سے محبت بڑھتی ہے‘‘۔
آفرین ہے چینی صدر شی چن پنگ پر کہ وہ دنیا بھر کے حکمرانوں میں سے سب سے بہادر نکلا، جب کورونا کا موسم عروج پر تھا تو وہ چین کی ایک مسجد میں چلا گیا، دعا کی درخواست کی اور پھر لوگوں کو تسلی دینے صوبہ ووہان چلا گیا، وہ مشکل وقت میں اپنے لوگوں میں کھڑا رہا، انقلابی شی چن پنگ کو سلام۔
خواتین و حضرات! میں تو خاکسار ہوں، مسلمان ہوں، اپنے نبیﷺ کے فرمان کے مطابق مصافحہ کرتا ہوں، گلے ملتا ہوں، موت سے نہیں ڈرتا کہ حضرت علی ؓکا یہ قول ہر دم سامنے رہتا ہے کہ ’’موت زندگی کی بہترین محافظ ہے‘‘۔ کورونا کے مریضوں پر ترس آتا ہے کیونکہ خوف آدھی موت ہے، مرض سے بھاگنا مریض کو موت کے اور قریب کر دیتا ہے۔ کورونا کے مریض کو کورونا پر نہیں انسانوں پر رونا آتا ہے جو اسے زندگی میں چھوڑ گئے کہ بقول سرور ارمان؎
ان آنکھوں میں کئی سپنے کئی ارمان تھے لیکن
سکوتِ لب کی تہہ میں کس قدر طوفان تھے لیکن
لگا کر ان کو دل سے میں سفر کرتا رہا برسوں
وہ کچھ لمحے جو میرے حوصلوں کی جان تھے لیکن
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔