Time 25 جولائی ، 2020
پاکستان

چیئرمین نیب، ڈپٹی چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کی تجویز

قومی احتساب بیورو (نیب) قانون میں حکومتی ترامیم کا مجوزہ مسودہ جیو نیوز نے حاصل کرلیا ہے جس کے مطابق حکومت نے چیئرمین نیب، ڈپٹی چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کی تجویز دی ہے۔

خیال رہے کہ موجودہ نیب قانون کے تحت چیئرمین کی مدت ملازمت 4 سال اور ناقابل توسیع ہے جب کہ  ڈپٹی چیئرمین، پراسکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت 3 سال اور نا قابل توسیع ہے۔

 ترمیمی مسودے کی تجاویز کے تحت، وفاقی اور صوبائی ٹیکس معاملات پر نیب قانون لاگو نہیں ہوگا اور  ٹیکس، لیویز اور محصولات کی تفتیش نیب کے بجائے متعلقہ ادارے کریں گے جب کہ مقدمات فوجداری عدالت میں چلیں گے۔

 نیب قانون کا اطلاق اس شخص پرنہیں ہوگا جس کا کسی عوامی عہدے دار سے براہِ راست یا بالواسطہ تعلق نہ ہو اور  اگر عوامی عہدے دار کے خلاف حکومتی منصوبے یا اسکیم سے مالی فائدہ اٹھانے کا ثبوت نہیں تو قواعد و ضوابط کی بے قاعدگی ہونے پر بھی نیب قانون لاگو نہیں ہوگا۔

 عوامی عہدے دار کے زیر کفالت یا بے نامی دار نے فائدہ اٹھایا تو نیب قانون لگے گا، اس کے علاوہ عوامی عہدے دار کے اثاثے اس کے ذرائع آمدن سے میل نہیں کھاتے تو اصل قیمت کا تعین ڈسٹرکٹ کلیکٹر اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)کرے گا۔

 عوامی عہدے دار اور اس کے زیر کفالت کے ناجائز فائدہ اٹھانے سے متعلق ٹھوس ثبوت پر ہی اختیارات کا ناجائز استعمال تصور کیا جائے گا جب کہ عوامی عہدیدار کے اچھی نیت سے کیے گئے عمل پر نیب قانون لاگو نہیں ہوگا۔

مجوزہ مسودہ پارلیمانی کمیٹی برائے قانون سازی میں اپوزیشن کو مشاورت کے لیے پیش کردیا گیا ہے۔

نیب قانون میں ترمیم کا پس منظر

یاد رہے کہ گزشتہ سال 27 دسمبر کو وفاقی کابینہ نے بذریعہ سرکولیشن قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی آرڈیننس 2019 کی منظوری دی تھی جس کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی آرڈیننس پر دستخط کر دیے تھے۔

صدر مملکت کے نیب ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کے بعد یہ آرڈیننس نافذ العمل ہوگیا مگر اپوزیشن کی جانب سے آرڈیننس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا گیا۔

دوسری جانب 15 جنوری 2020ء  کو سپریم کورٹ  نے نیب آرڈیننس کی شق 25 اےکے تحت پلی بارگین (بدعنوانی سے حاصل کی گئی رقم رضامندی سے  واپس کرنے)  سے متعلق از خود نوٹس کیس میں حکومت کو نیانیب قانون لانے کے لیے 3 ماہ کی مہلت دی تھی۔

 عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ 'توقع کرتے ہیں حکام نیب قانون سے متعلق مسئلے کو حل کرلیں گے اور نیب قانون کے حوالے سے مناسب قانون پارلیمنٹ سے منظور ہوجائے گا جب کہ 3 ماہ میں مسئلہ حل نہ ہوا تو عدالت قانون اورمیرٹ کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرے گی'۔

خیال رہے کہ  نیب آرڈیننس کی شق 25 اےکے تحت پلی بارگین کے خلاف ازخود نوٹس 2016ء میں اس کے چیف جسٹس  آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے لیا تھا۔

مزید خبریں :