کیا محمد عامر کی قومی ٹیم میں واپسی اتنی ضروری تھی؟

— محمد عامر/فائل فوٹو

پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق نے گزشتہ سال آسٹریلیا میں تین ٹی 20مقابلوں میں 7.4 اوورز میں 66 رنز کے بدلے ایک وکٹ لینے والے محمد عامر کو اس سال بنگلا دیش کے خلاف ٹی20 سیریز میں منتخب نہیں کیا، تو کرکٹ کے حلقوں میں ان کے اس فیصلے کو پسند کیا گیا۔

البتہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بورڈ کی طرح چیف سلیکٹر کے فیصلوں میں بھی تسلسل کا فقدان ہے، وہ مصباح الحق جنھیں کوچنگ میں فاسٹ بولر سابق کوچ مکی آرتھر کے قریب بھی نہیں سمجھتے، جن کا مکی آرتھر کے ساتھ موازنہ ان کی نگاہ میں ایک بے وقوفی سے زیادہ نہیں ، انہی مصباح الحق نے محمد عامر کو پی سی بی کے توسط سے معلوم ہوا کہ دورہ انگلینڈ کے لیے قائل کر لیا۔

 یہ بات اس لیے سمجھ سے باہر ہے کہ محمد عامر گزشتہ سال خود کو طویل دورانیے کی ٹیسٹ کرکٹ سے علیحدہ کر چکے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ سفید گیند کےساتھ وہ زیادہ مؤثر اور کارگر ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ محمد عامر نے 2019ء ورلڈ کپ میں 21.05کی اوسط سے 8 میچوں میں 17 وکٹیں حاصل کی تھیں ، لیکن انگلینڈ میں قومی ٹیم ٹیسٹ کے بعد تین ٹی 20کھیلے گی، جہاں اس طرز کی کرکٹ میں بائیں ہاتھ کے تیز بولر نے تین میچوں میں 89 رنز کے بدلے صرف ایک ہی وکٹ لے رکھی ہے۔

محمد عامر پانچ سال کی پابندی کے بعد ٹی 20کرکٹ کے جو 30میچ کھیلے ہیں ، ان میں وہ 36وکٹ ہی لے سکے ہیں ، پھر ان کی جانب چیف سلیکٹر کا اس انداز میں متوجہ ہونا سمجھ سے باہر ہے۔ پانچ سال کی سزا کے بعد بین الاقوامی کرکٹ میں واپس آنے والے محمد عامر جو اب اپنا مستقبل سفید گیند کی کرکٹ میں دیکھ رہے ہیں، دراصل سفید گیند کے ساتھ وہ ٹیم پاکستان کے لیے زیادہ مؤثر نہیں رہے۔ ایسا لکھا جائے، تو غلط نہیں ہوگا۔ پانچ سال کی پابندی کے بعد 46 ون ڈے میں عامر نے 58وکٹ حاصل کیے، اس کے برعکس واپسی کے بعد انھوں نے جو 9 ٹیسٹ سیریز کھیلیں ، وہاں 22 ٹیسٹ میچوں میں ان کی 68 وکٹیں قدرے معیاری پرفارمنس کے زمرے میں آتی ہیں۔ البتہ ٹیسٹ کرکٹ میں محمد عامر خود کو زیادہ تھکانا نہیں چاہتے۔

محمد عامر کا خیال ہے کہ انھوں نے بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کے بعد تینوں فارمیٹس کھیل کر خود کو مشکل میں ڈالا۔ اپنی ناقص کارکردگی کو محمد عامر اس عذر کےساتھ چھپانے کی جو کوشش کر رہے ہیں ، اعدادوشمار ان کی مدد کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کے بعد محمد عامر پاکستان ٹیم کے لیے کھیلے تو فرنٹ لائن بولر کی حیثیت سے ، البتہ ان کی کارکردگی محض واجبی سی ہی نظر آتی ہے۔ مسلسل اوسط درجے کی پرفارمنس کے ساتھ سابق کوچ مکی آرتھر محمد عامر کو کھلاتے رہے۔ انہوں نے دوسرے بولرز بلخصوص جنید خان اور وہاب ریاض کو سفید گیند کرکٹ میں صرف محمد عامر کو موقع دینے کے چکر میں ٹیم سے باہر رکھا۔

حیران کن امر یہاں یہ ہے کہ محمد عامر نے بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کے بعد جو 98میچ تینوں فارمیٹس میں کھیلے، وہاں ایک بار بھی وہ میچ کے بہترین کھلاڑی یعنی مین آف دا میچ ایوارڈ کے حصول میں کامیاب نہیں ہوئے۔ 18جون 2017ء کو اوول (لندن) میں چیمپئینز ٹرافی فائنل میں محمد عامر کی 3/16کی پرفارمنس پر بات کرنے والے یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ بھارتی ٹیم 339رنز کے ہدف کے تعاقب میں ابتداءً ہی سے دباؤ کا شکار تھی۔

پھر سابق ٹیسٹ کپتان اور چیف سلیکٹر انضمام الحق کا سوال بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے، جو کہتے ہیں کہ اگر محمد عامر مسلسل کرکٹ کھیلنے کی وجہ سے تھکاوٹ اور دباؤ کا شکار تھے، تو وہ دنیا بھر کی لیگ نہ کھیلتے۔ سچ تو یہ ہے کہ محمد عامر پاکستان سے ٹیسٹ کرکٹ نہ کھیلنے کا اعلان کرکے انگلش کاؤنٹی ایسیکس کے لیے چار روزہ میچ کھیل رہے تھے۔ مطلب محمد عامر کی نیت پر تو سوال نہیں کیا جا سکتا، البتہ ان کے معاملات اور انضمام الحق کی بات تو وزن رکھتی ہے۔

گجر خان سے تعلق رکھنے والے 28سال کے فاسٹ بولر نے 2010ء میں اپنے کیرئیر کو چند روپوں کی خاطر داغ دار کیا۔ اچھا ہوتا کہ فاسٹ بولر اپنے کھیل سے غلطی کو ماضی بنا دیتا۔ البتہ افسوس کےساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ محمد عامر کو ورلڈ کپ 2019ء میں ڈراپ کرنا درست فیصلہ تھا۔ انھیں ورلڈ کپ سے قبل 15میچوں میں آٹھ وکٹ کی کارکردگی پر موقع نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

 البتہ منتخب ہونے والے جنید خان کی جگہ ورلڈ کپ شروع ہونے سے پہلے انھیں ٹیم کا حصہ بنا لیا گیا۔ اب بولنگ کوچ وقار یونس کا محمد عامر کے لیے یہ کہنا کہ دیکھنا ہوگا، کہ وہ کہاں کھڑے ہیں ، تاکہ ان کے مستقبل کا فیصلہ ہوسکے، محض ایک بیان سے زیادہ نہیں ہے، کیونکہ سابق ٹیسٹ فاسٹ بولر عاقب جاوید کہتے ہیں کہ مصباح الحق کی طرح پی سی بی میں محمد عامر کے بڑے چاہنے والے ہیں۔

 حقیقت یہ ہے کہ محمد عامر نہ تو اب نئی گیند سے ٹیم کو وکٹ لے کر دے رہے ہیں ، نا آخری اوورز میں اچھی بولنگ کرتے ہیں۔ سفید گیند کرکٹ میں کپتان ان پر اعتماد رکھتا ہے، یہ بات محض خیال نہیں ، حقیقت پر مبنی ایک تلخ سچ ہے۔ محمد عامر نے پانچ سال کی پابندی کے بعد جو 46 ون ڈے کھیلے ، وہاں 29 ایسے میچ ہیں ، جہاں انھوں نے دس اوورز ہی نہیں کیے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔