14 اگست ، 2020
ترکی اور ایران نے متحدہ عرب امارات کے اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔
ترک وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق امارات نے محدود مفادات کے لیے فلسطینی کاز کے ساتھ غداری کی، لوگوں کا ضمیرمنافقانہ رویے نہ فراموش کرے گا نہ ہی معاف کرے گا۔
ترک وزیر خارجہ میولوت چاوش اولو کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کو ایک ریاست تسلیم کرنے سے خطے میں عدم استحکام آئے گا اور فلسطین کی آزادی اور اس کی خود مختاری کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے کہا کہ یو اے ای برسوں سے فلسطینی جدوجہد کو کمزور کرنے اور اسرائیل کے مزید فلسطینی سرزمین پر غاصبانہ قبضے کی حمایت کے لیے کام کر رہا تھا اور ترکی اس ڈیل کو مسترد کرتا ہے۔
اُدھر ترک صدارتی ترجمان ابراہیم قالن نے کہا ہے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان مطابقت فلسطینی عوام اور ان کے حقوق سے انحراف کی تاریخ کا سیاہ باب ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ اس معاہدے کی روشنی میں فلسطینی عوام کے ساتھ کی گئی غداری اور حق تلفیوں کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔
ایران نے بھی متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے تعلقات کی بحالی کی مذمت کی ہے اور معاہدے کو اسٹریٹجک حماقت قرار دے دیا۔
ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق یہ اقدام ابو ظبی اور تل ابیب کی طرف سے اسٹریٹجک حماقت ہے، اس اقدام سے خطے میں مزاحمت اور مضبوط ہوگی۔
ایرانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی عوام اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحالی کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔
امارات اسرائیل امن معاہدے کے بعد فلسطین نے ابوظبی سے احتجاجاً اپنا سفیر واپس بلالیا ہے۔
روسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس نے یو اے ای کے اس عمل کو غداری قرار دیا ہے۔
محمود عباس نے یو اے ای سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس فیصلے کو واپس لے اور دیگر عرب ممالک فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کرتے ہوئے امارات کے نقش قدم پر مت چلیں۔
ادھر فلسطینی مزاحتمی تنظیم حماس نے امارات اسرائیل معاہدے کو فلسطینیوں کے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان باہمی تعلقات قائم کرنے کیلئے امن معاہدہ طے پایا ہے۔
معاہدے کے تحت اسرائیل مزید فلسطینی علاقے ضم نہیں کرے گا، دو طرفہ تعلقات کے لیے دونوں ممالک مل کر روڈ میپ بنائیں گے۔
معاہدے کے مطابق امریکا اور متحدہ عرب امارات، اسرائیل سے دیگر مسلم ممالک سے بھی تعلقات قائم کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے، اسرائیل سے امن کرنے والے ممالک کے مسلمان مقبوضہ بیت المقدس آ کر مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھ سکیں گے۔