01 ستمبر ، 2020
سابق وزیر داخلہ سینیٹر رحمان ملک پر سنگین الزامات لگانے والی امریکی شہری سنتھیا ڈی رچی نے عدالت کو بیان بازی نہ کرنے کی یقین دہانی کروادی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں امریکی بلاگرسنتھیا ڈی رچی کو ڈی پورٹ کرنے کی درخواست پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔
اس دوران پٹیشنر چوہدری افتخارکی جانب سے لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ اور سنتھیا ڈی رچی اپنے وکیل عمران فیروز ملک کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواست گزار کےوکیل سےسوال کیا کہ آپ کو کیا شکایت ہے؟ جسٹس آف پیس کےعدالتی فیصلے کاپیرا 9 اختیارات سے تجاوز ہے اور طےشدہ قانون ہےکہ مقدمہ درج کرنے کے لیے کسی انکوائری کی ضرورت نہیں،جھوٹی ایف آئی آر درج کرائی جائے تو اس کے لیے بھی قانون موجود ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ جسٹس آف پیس کے پاس انویسٹی گیشن کے اختیارات نہیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ نےسنتھیا رچی کوسننےکےبعدوزارت داخلہ کا حکم پڑھ کرسنایا جس کے مطابق وزارت داخلہ نے سنتھیا رچی کے ویزے میں 31 اگست تک توسیع کی جب کہ سنتھیا کے الزامات سے متعلق انکوائری ایف آئی اے کر رہی ہے اور سنتھیا نے بتایا کہ وہ کسی حکومتی ادارے کی ملازمہ نہیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس کا کہناتھا کہ آپ کیاکہہ رہے ہیں؟ پہلے بتایا گیا تھا کہ کےپی حکومت اورآئی ایس پی آرکے ساتھ کام کیا۔
اس کے جواب میں ڈپٹی اٹارنی جنرل سید محمد طیب شاہ نے کہا کہ سنتھیا کو دوبارہ بلاکر سنا گیا تو انہوں نے اس متعلق وضاحت کی، سنتھیارچی کی ویزے میں توسیع کی درخواست مارچ اور پھر جولائی میں دی گئی۔
اس دوران لطیف کھوسہ کا کہناتھا کہ سنتھیا رچی کا اس وقت ویزا ختم ہو چکا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ سنتھیاحکومت وقت کےخلاف بیانات دےتوکیا سیکرٹری داخلہ خاموش رہیں گے؟ کیا آپ بتا رہے ہیں کہ ویزا جاری کرنے کے لیے کوئی قانون نہیں؟ بزنس ویزا کے اجراء کے لیے کیا قانون ہے؟ ڈاکومنٹ دکھائیں۔
معزز چیف جسٹس اسلام آباد نے استفسار کیا کہ آپ اپنےحکم میں خود بتارہے ہیں کہ ویزا قواعد کی خلاف ورزی کی گئی، کیا کل کوئی بزنس ویزےپر آکر وزیراعظم کے خلاف ایسے بیان بازی بھی کرسکتا ہے؟ آپ نے کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا؟ یہ تشویشناک بات ہے کہ وزارت داخلہ کو قانون کا ہی علم نہیں، اگر کوئی پاکستان آکر ویزا قواعد کی خلاف ورزی کرےتو حکومت پاکستان کیا کرے گی؟
وزارت داخلہ کے نمائندے کا کہنا تھا کہ پھر ریاست اس متعلق ایکشن لے گی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر سیکرٹری داخلہ کو نہیں معلوم کہ بزنس ویزاکے کیا قواعد ہیں تو یہ بات بہت تشویشناک ہے، کیا سیکرٹری داخلہ آئندہ سماعت پر آکر اس معاملے پر وضاحت کرسکتے ہیں؟ اس دوران چیف جسٹس نے کہا کہ بزنس ویزے کا تقاضا ہے کہ سیاسی بیانات نہ دیے جائیں۔
اس دوران سنتھیا کے کوکیل نے کہا کہ میں سنتھیاکی طرف سے بیان حلفی دیتا ہوں کہ وہ آئندہ ایسے بیانات نہیں دیں گی۔
عدالت نے سیکرٹری داخلہ سے ویزا پالیسی طلب کر تے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔