11 ستمبر ، 2020
کراچی میں آج سے 8 سال پہلے پیش آنے والا سانحہ بلدیہ فیکٹری قتل در قتل کی بدترین مثال بن گیا۔
آج سے ٹھیک 8 برس قبل 11 ستمبر 2010 کے روز پہلے 250 سے زائد افراد کو جلا کر راکھ کیا گیا، پھر مقتولین سے جُڑے خاندانوں کا جذباتی، معاشی اور سماجی قتل کیا گیا اور پھر انصاف میں تاخیر سے انصاف کا قتل ہوا۔
اس روز متاثرین پر کیا گزری، اس حوالے سے ایک متاثرہ خاتون سعید بتاتی ہیں کہ وہ دن قیامت صغرا تھا، آگ اس قدر شدید تھی کہ بیان ہی نہیں کی جا سکتی۔
سعیدہ خاتون کا کہنا ہے کہ شوہر کے انتقال کے بعد اکلوتا بیٹا ہی دنیا میں جینے کا سہارا تھا، جب اطلاع ملی کہ فیکٹری میں آگ لگ گئی ہے تو تڑپ کر گھر سے نکل پڑی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ جس بیٹے کی ذرا سی چوٹ پر کلیجہ ہل جایا کرتا تھا، اُسے مردہ حالت میں دیکھا تو اس وقت جو کیفیت ہوئی اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
اس دُکھ کی شدت کتنی اور کیسی ہے؟ یہ اندازہ لگانے کیلئے سعید ہ کے دُکھ کو 260 ماؤں کے کرب سے ضرب دیں تو نتیجہ معلوم ہو جائے گا۔
اس سے بھی اذیت ناک بات یہ ہے کہ متاثرین کو اپنے حق کے لیے تنظیم بنانی پڑی۔
اپنی امیدوں کے مرکز کو آگ میں جلتا دیکھنے والی یہ آنکھیں منصفوں سے شکایت کر رہی ہیں کہ مر جائیں گے مظلوم تب انصاف کرو گے؟