15 ستمبر ، 2020
اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں ضمانت ختم ہونے کے بعد عدالتی حکم کے باوجود سرینڈر نہ کرنے پر سابق وزیراعظم نواز شریف کے 22 ستمبر کے لیے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے اور اپیلوں پر سماعت کے دوران حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی مسترد کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامرفاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی سزا کے خلاف اپیلوں، حاضری سے استثنیٰ، سرینڈر کرنے کا عدالتی حکم واپس لینے اور قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ضمانت منسوخی کی درخواستوں پر سماعت کی۔
نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے پرویز مشرف کیس سمیت اعلٰی عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے پیش کیے اور کہا کہ ایسی مثالیں موجودہیں کہ ایک کیس میں مفرور ملزم کی دوسرے کیس میں درخواست سنی گئی۔
اس موقع پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے درخواست کی مخالفت کی اور کہا کہ عدالت نوازشریف کو سرینڈرکرنے کاحکم دے چکی، درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ضمانت لےکربیرون ملک جانےوالے نے سرجری کرائی نہ اسپتال داخل ہوا، عدالت سے باہر جانے کی اجازت بھی نہیں مانگی۔
اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ڈاکٹرز نے سفر کی اجازت دی تو نوازشریف پہلی فلائٹ سے واپس آجائیں گے، میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کرائے جن کی تردید میں نیب اور وفاقی حکومت نے بھی کچھ پیش نہیں کیا، میڈیکل سرٹیفکیٹس ناقابل تردید ہیں تو نواز شریف کے خلاف آرڈر کیسےجاری ہوسکتا ہے؟
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ ایک کنسلٹنٹ کی رائے ہے جو کسی اسپتال کی طرف سے نہیں، ابھی تک کسی اسپتال نے نہیں کہا کہ ہم کووڈ کی وجہ سےنوازشریف کو داخل کرکے علاج نہیں کرپارہے، وفاقی حکومت تو ابھی تک یہاں کی میڈیکل رپورٹس پر شک کررہی ہے، اگراسپتال سے باہر ہی رہنا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ وہ پہلے بھی پاکستان میں اسپتال داخل اور زیر علاج رہے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی ضمانت ختم ہوچکی ہے اور یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ نوازشریف کی ضمانت ختم ہوچکی ہے، اب صرف سوال یہ ہے کہ کیاوہ پاکستان واپس آنے کی پوزیشن میں ہیں یا نہیں؟ ہم نے نوازشریف کے میڈیکل سرٹیفکیٹ دیے ہیں، نیب اور وفاقی حکومت نے ان میڈیکل سرٹیفکیٹس کی تردید میں کچھ پیش نہیں کیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی واپسی سے متعلق معاملہ لاہورہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے، اِس کورٹ سے باہر جانے کی اجازت نہیں مانگی گئی، ضمانت ایک مخصوص مدت کے لیے تھی اور شاید یہ بات لاہور ہائی کورٹ کو نہیں بتائی گئی۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہمارے سامنےصرف ایک سوال ہےکہ ضمانت دی تھی جوختم ہوگئی، اب ہم کیاکریں۔
قانون کے بھگوڑے کو ریلیف دینے سے انصاف کا نظام متاثر ہوگا: نیب پراسیکیوٹر
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ نیب آرڈیننس کے تحت مفرور ملزم کو 3 سال تک قیدکی سزاسنائی جاسکتی ہے، عدالت کے پاس اختیار ہے کہ مفرور کی اپیل مسترد کر دے یا خود اس کے لیے وکیل مقرر کرے، قانون کے بھگوڑے کو ریلیف دینے سے انصاف کا نظام متاثر ہوگا،عدالت سرینڈر کرنے کا موقع فراہم کرچکی ہے۔
دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے نیب کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف کی ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کردی اور ان کے 22 ستمبر کو حاضری کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔ کیس کی مزید سماعت 22 ستمبر کوہوگی۔
یاد رہے کہ 24 دسمبر 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بری کرتے ہوئے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جس کے بعد نیب نے سابق وزیراعظم کو گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا تھا۔
احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ریفرنسز پر فیصلہ سنایا تھا، سابق وزیراعظم نواز شریف فیصلہ سننے کے لیے خود بھی عدالت میں موجود تھے۔
تاہم ارشد ملک کیخلاف ویڈیو اسکینڈل سامنے آنے کے بعد ن لیگ ان کی جانب سے سنائی جانے والی سزا بھی کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کررہی ہے۔
اس کے علاوہ جولائی 2018 میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 11 اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 8 جب کہ داماد کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔
بعدازاں 19 ستمبر 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو سنائی گئی سزا معطل کرتے ہوئے تینوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
سابق وزیراعظم نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزاؤں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کررکھاہے جب کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب نے ان کی ضمانت منسوخ کرانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائرکی ہے۔