پاکستان
Time 25 ستمبر ، 2020

سانحہ اے پی ایس: اپنا ہی خون غداری کرے تو نتائج سنگین ہوتے ہیں، جوڈیشل انکوائری رپورٹ

اسلام آباد: سانحہ آرمی پبلک اسکول کی عدالتی تحقیقاتی رپورٹ میں اسکول کی سیکیورٹی پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ نے سانحہ آرمی پبلک اسکول کی عدالتی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ عام کرنے کا حکم دیا ہے۔

سانحہ اے پی ایس کی عدالتی تحقیقاتی رپورٹ 525 صفحات اور 4 حصوں پر مشتمل ہے جس میں اسکول کی سیکیورٹی پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں جب کہ دھمکیوں کے بعد سیکیورٹی گارڈز کی کم تعداد اور درست مقامات پرعدم تعیناتی کی نشاندہی کی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ دہشتگرد اسکول کے عقب سے بغیر کسی مزاحمت کے داخل ہوئے، دھماکوں اور شدید فائرنگ میں سیکیورٹی گارڈز جمود کا شکار تھے، سیکیورٹی گارڈز نے مزاحمت کی ہوتی شاید جانی نقصان اتنا نہ ہوتا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہےکہ افغانستان سے دہشتگرد ممکنہ طور پر مہاجرین کے روپ میں داخل ہوئے، گشت پر مامور سیکیورٹی اہلکار دہشتگردوں کی جانب سے جلائی گئی گاڑی کی جانب گئے، گاڑی کو آگ سیکیورٹی اہلکاروں کو دھوکا دینے کیلئے لگائی تھی، گشت پر مامور سیکیورٹی اہلکاروں کی دوسری گاڑی نے پہنچ کر دہشتگردوں کا مقابلہ کیا۔

رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی کی 3 پرتیں گیٹ پرموجود گارڈز، علاقے میں پولیس گشت اور کوئیک رسپانس فورس 10  منٹ کے فاصلے پرموجود تھیں، تینوں پرتیں دھویں کی طرف متوجہ ہوگئیں جو منصوبے کے تحت ایک گاڑی کو آگ لگانے کی وجہ سے اٹھا ، نتیجتاً سیکیورٹی کی توجہ آرمی پبلک اسکول سے ہٹ گئی اور دہشتگرد اسکول میں داخل ہوگئے، اسکول کے پیچھے گشت پر موجود فورس جلتی ہوئی گاڑی کی جانب چلی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ اس واقعہ نے ہمارے سیکیورٹی نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، سیکیورٹی پرتعینات اہلکار نہ صرف آنے والے حملہ آوروں کو روکنے کیلئے ناکافی تھے بلکہ ان کی پوزیشن بھی درست نہیں تھی، سیکیورٹی کی تمام توجہ مین گیٹ پرتھی جب کہ اسکول کا پچھلے حصے پر کوئی سیکیورٹی تعینات نہیں تھی، پچھلے گیٹ سے دہشتگرد بغیر کسی مزاحمت کے اسکول میں داخل ہوئے، سیکیورٹی پر مامور گارڈز کی صلاحیت دہشتگردوں کو روکنے کیلئے ناکافی تھی۔

رپورٹ کی فائنڈنگز  میں کہا گیا ہے کہ دہشتگردوں کو مقامی افراد کی طرف سے ملنے والی سہولت کاری ناقابل معافی ہے، غفلت کا مظاہرہ کرنے والی یونٹ کے متعلقہ افسران واہلکاروں کو سزائیں بھی دی گئیں۔

رپورٹ کی فائنڈنگز میں کہا گیا ہے کہ کوئی ایجنسی ایسے حملوں کا تدارک نہیں کرسکتی بالخصوص جب دشمن اندر سے ہو اور اپنا ہی خون غداری کر جائے تو نتائج بہت سنگین ہوتے ہیں اور ایسے ہی تباہ کن سانحات رونما ہوتے ہیں۔ 

رپورٹ فائنڈنگز میں مزید کہا گیا ہےکہ ان حقائق کے باوجود انتہا پسند عناصرکو مقامی آبادی کی طرف سے مدد فراہم کیا جانا ناقابلِ معافی جرم ہے، ایسے عناصر کی وجہ سے محدود وسائل میں کیے سیکیورٹی انتظامات ناکام ہوتے ہیں، ایسے عناصر سے دشمن کو ناپاک عزائم پورے کرنے میں مدد ملتی ہے، کوئی ایجنسی چاہے کتنے ہی وسائل کیوں نا رکھتی ہو ایسے واقعات روکنے میں ناکام ہوتی ہے جب اندر سے ہی مدد فراہم کی گئی ہو۔

سانحہ اے پی ایس کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ


مزید خبریں :