03 اکتوبر ، 2020
نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک نے نوکری سے برطرفی کافیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔
سابق جج احتساب عدالت ارشد ملک نے لاہور ہائی کورٹ میں دائر اپیل میں مؤقف اختیارکیا ہے کہ انتظامی کمیٹی نے حقائق کے برعکس برطرفی کافیصلہ سنایا،میں نے تمام فیصلے قانون کے مطابق کیے اور مِس کنڈکٹ کامرتکب نہیں ہوا، لہٰذا برطرفی کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو جج ارشد ملک نے ہی24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں7سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کردیا تھا۔
عدالتی فیصلے کے بعد 6 جولائی 2019 کو مریم نواز ایک مبینہ آڈیو ویڈیو ٹیپ سامنے لائی تھیں جس کے مطابق جج ارشد ملک نے دباؤ میں آکر یہ سزا سنائی تاہم جج ارشد ملک نے اس کی تردید کرتے ہوئے ویڈیو کو جعلی قرار دیا تھا۔
اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ بھی کیا تھاکہ چونکہ جج نے ویڈیو میں خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے معاملے کا نوٹس لیا تھا اور ارشد ملک کو احتساب عدالت کےجج کے عہدے سے ہٹاکر او ایس ڈی بنایا گیا تھا جب کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر تفصیلی فیصلہ بھی جاری کیا تھا۔
اس معاملے پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان نے 7 رکنی انتظامی کمیٹی بنائی تھی جس نے انکوائری رپورٹ میں مس کنڈکٹ ثابت ہونے پر ارشد ملک کو ملازمت سے برطرف کر دیا تھا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ماتحت عدلیہ کے برطرف ججوں کی اپیلیں سننے کے لیے ایک 3 رکنی ٹریبونل بھی تشکیل دے رکھا ہے جو کہ سابق جج ارشد ملک کی درخواست کی سماعت کرے گا۔