05 اکتوبر ، 2020
چیف جسٹس آف پاکستان نے پشاور رجسٹری میں کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ آپ کہتے ہیں بلین ٹری لگائے لیکن ہمیں کوئی درخت نظر نہیں آیا، ہر جگہ آلودگی ہے۔
سپریم کورٹ پشاور رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کیلئے انتظامات پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کیا اور ریمارکس دیے کہ جو لوگ کام نہیں کرتے، فارغ کرکے نئے لوگ لے آئیں، یہ اے سی والےکمرے میں بیٹھے ہوتے ہیں اور صرف خط لکھتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ افسران کام کررہے ہوتے تو کلف والےکپڑوں میں نہیں، جینز پہن کر آتے، خطوط پرکام ہونے کا زمانہ چلا گیا، خط لکھنا بابو کا کام ہے، یہاں بہت بری حالت ہے، ہر جگہ آلودگی ہے۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ آپ کی رپورٹ میں غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ہے، آپ کےکوئی عملی اقدامات نظر نہیں آئے، کاغذی معاملات میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کہتے ہیں بلین ٹری لگایا لیکن ہمیں کوئی درخت نظر نہیں آیا، آپ کو پتہ نہیں دنیا میں معاملات کیسے چل رہے ہیں، ہم نے شہر کا حال اپنی آنکھوں دیکھ لیا، چھوٹے شہر کا یہ حال ہے تو بڑے شہروں کا کیا حال ہوگا؟
دوران سماعت جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ کورونا نہ ہوتا تو بھی آلودگی کی وجہ سے فیس ماسک لگاتے۔
عدالت نے 4 ہفتوں میں تفصیلی رپورٹ طلب کرکے سماعت ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف حکومت کی جانب سے بلین ٹری منصوبے کے تحت ایک ارب سے زائد درخت لگانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے پی ٹی آئی چیئرمین اور موجودہ وزیراعظم عمران خان 10 فروری 2018 کو تقریب سے دعویٰ کرچکے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں 3 سال کے دوران ایک ارب 12 کروڑ درخت لگائے، بلین ٹری سونامی اپنی نوعیت کا منفرد منصوبہ ہے جس سے پانچ لاکھ لوگوں کو روزگارملا ہے۔