13 اکتوبر ، 2020
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر حافظ حمد اللہ کی شہریت اور قومی شناختی کارڈ کی منسوخی کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ ایجنسیوں کی رپورٹ پر ہی کسی شہری کا قومی شناختی کارڈ بلاک کا منسوخ کرنے کا ایکشن لیا جاتا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہونے دے گی، نادرا کو اس قسم کا کوئی اختیار نہیں ہے، وہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سینیٹر حافظ حمد اللہ کی شہریت اور قومی شناختی کارڈ منسوخ کرنے کے نادرا کے حکم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ حافظ حمد اللہ کا بیٹا تو ابھی ملٹری اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہوا ہے، کیا ان کی شہریت پر شک کیا جا سکتا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ حافظ حمد اللہ پارلیمینٹیرین ہیں، آپ کیسے شہریت منسوخ کر سکتے ہیں؟ کس قانون کے تحت آپ لوگوں کی شہریت پر سوال اٹھاتے ہیں؟اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے طے کریں گے۔
دوران سماعت نادرا کے وکیل نے کہا کہ ایجنسیز سے رپورٹ آنے پر ہی کسی بھی شہری کے خلاف کوئی ایکشن لیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اس کورٹ کا رجسٹرار آپ کو کچھ بھیج دے تو کیا آپ کسی کی شہریت منسوخ کر دیں گے؟ یہ تو ایلیٹ کلاس ہے، عام لوگوں کے ساتھ پتہ نہیں آپ کیا کرتے ہوں گے۔ آپ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں،نادرا کو اس قسم کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں نادرا نے حافظ حمد اللہ کی پاکستانی شہریت منسوخ کر دی تھی جب کہ پیمرا نے ٹی وی چینلز کو ہدایت کی تھی کہ حافظ حمداللہ کو ٹاک شوز میں نہ بلایا جائے۔