Time 15 اکتوبر ، 2020
پاکستان

انتظار قتل کیس میں نیا موڑ: عینی شاہد مدیحہ نے بیان ریکارڈ کرادیا

کراچی میں قتل ہونے والے نوجوان انتظار کے کیس میں نیا موڑ آگیا، عینی شاہد مدیحہ کیانی نے 2 سال 10 ماہ بعد عدالت میں بیان ریکارڈ کرادیا۔

مدیحہ نے بتایا کہ وہ گاڑی میں انتظار کے ساتھ جارہی تھی، پولیس والوں نے رُکنے کا اشارہ کیا، اس کے بعد عقب سے آواز آئی، یہ وہی گاڑی ہے  اور  پھر فائرنگ شروع ہوگئی۔

مدیحہ نے انسداد دہشت گردی عدالت کو بتایا کہ واقعے کے بعد اسے ہراساں کرنے کے علاوہ مرضی کا بیان لینے کی کوشش بھی کی گئی لیکن اُس نے انکار کردیا۔

انتظار قتل کیس کی چشم دید گواہ مدیحہ کیانی نے تقریبا تین سال بعد کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت کو اپنے بیان میں بتایا کہ وہ جوس پینے کے بعد انتظار کے ساتھ گاڑی میں جارہی تھی، اسی دوران دو گاڑیوں نے ان کا راستہ روکا، ہم رُکے تو پیچھے سے آواز آئی، یہ وہی گاڑی ہے، اس کے بعد روکنے والوں نے ہمیں جانے کا اشارہ کیا، انتظار نے جیسے ہی گاڑی آگے بڑھائی ، پیچھے سے فائرنگ شروع ہوگئی۔

مدیحہ نے بتایا کہ گولی لگنے سے انتظار موقع پر جاں بحق ہوگیا اور گاڑی روڈ کراس کرکے ایک گٹر سے ٹکرائی اور رُک گئی، میں خوفزدہ تھی اس لیے گاڑی سے اُتر کر رکشہ روکا اور رکشے والے کو بتایا کہ ان لوگوں نے میرے بھائی کو گولی مار دی ہے، میں رُکی تو یہ مجھے بھی شوٹ کردیں گے، اس کے بعد میں وہاں سے چلی گئی۔

مدیحہ نے بیان میں کہ وہ فائرنگ کرنے والوں کو پہچان نہیں سکتی۔ اس نے عدالت کو بتایا کہ واقعے کے بعد اسے ہراساں بھی کیا گیا، کاظم نامی شخص اُس لے گیا، جہاں مدعی کے پہلے وکیل نے مرضی کا بیان دینے کو بھی کہا، لیکن اس نے انکارکر دیا۔

ملزمان کے وکلا نے مدیحہ کے بیان پر جرح مکمل کر لی ہے جس کے بعد  عدالت نے مزید سماعت 31 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

انتظار قتل کیس

یاد رہے کہ 13 جنوری 2018 کو ڈیفنس کے علاقے خیابان اتحاد میں اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکاروں کی فائرنگ سے 19 سالہ نوجوان انتظار احمد ہلاک ہوگیا تھا، جس کے بعد نوجوان کے والد نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے انصاف کی اپیل کی تھی۔

مقتول انتظار کے والد کی پریس کانفرنس پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور واقعے کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا تھا۔

پولیس نے ابتدائی طور پر بیان دیا کہ اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) کے اہلکاروں نے گاڑی مشکوک سمجھ کر اسے رکنے کا اشارہ کیا اور نہ رکنے پر فائرنگ کی گئی جس سے نوجوان ہلاک ہوگیا۔

پولیس کی تحقیقات کے مطابق جائے وقوع سے گولیوں کے 16 خول ملے جب کہ مقتول کی گاڑی میں ایک لڑکی موجود تھی جو بعد میں رکشے میں چلی گئی، اس لڑکی کی شناخت بعد میں مدیحہ کیانی کے نام سے ہوئی۔

مدیحہ کیانی نے اپنے بیان میں بتایا کہ اس کی ایک ہفتہ پہلے ہی انتظار سے دوستی ہوئی تھی اور اس نے فائرنگ کرنے والوں کو نہیں دیکھا۔

فائرنگ کے واقعے میں ایس ایس پی اینٹی کار لفٹنگ سیل مقدس حیدر کے گن مین براہ راست ملوث شامل تھے جب کہ اس کیس میں 9 پولیس افسران اور اہلکار گرفتار ہیں۔

مزید خبریں :