24 نومبر ، 2020
اگرچہ اس وقت دنیا بھر کے ممالک کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے شدید متاثر ہیں لیکن پس منظر میں کھڑا دشمن ’’کلائمنٹ چینج ‘‘( یعنی موسمیاتی تبدیلی) اس وائرس سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔
ہوسکتا ہے آپ اس بات سے اتفاق نہ کریں لیکن اعدادوشمار یہی ظاہر کرتے ہیں ۔
ممکنہ تباہ کاریاں
عالمی اعدادوشمار کے مطابق 1999 سے 2018 کے دوران موسمی شدت کے واقعات ( مثلا ًسیلاب ، طوفان، شدید بارشوں کے نتیجے میں دنیا بھر میں 4 لاکھ 95 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
موسمیاتی تبدیلی نہ صرف انسانی جانوں کے لیے خطرہ ہے بلکہ عالمی معیشت پر بھی نقصان دہ اثرات پڑنے کے امکانات پیدا کر رہی ہے۔
آکسفورڈ اکنامکس کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2050 تک زمین 2 سینٹی گریڈ مزید گرم ہوسکتی ہے جس کے نتیجےمیں عالمی مجموعی گھریلو پیداوار جسے جی ڈی پی کہا جاتا ہے، میں 7.5فیصد تک کمی واقع ہونے کا امکان ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایشیاء اور افریقا کے غریب ترین ممالک اس تباہی سے بدترین متاثر ہوں گے۔ 21 ویں صدی میں اگر درجہ حرارت 4 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے تو پیداوار میں 30 فیصد کمی متوقع ہے۔
کرہ ارض کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچانے کیلئے دنیا کے امیرترین حضرات کا تعاون
کرہ ارض کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچانے کے لیے دنیا کے امیر ترین کاروباری حضرات بھی پیش پیش ہیں۔
ایمیزون کے بانی جیف بیزوز نے امریکا کی معروف ماحولیاتی تنظیموں کے لیے 800 امریکی ڈالر کی گرانٹ کا اعلان کیا۔
یہی نہیں رواں برس جیف بیزوز ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کام کرنے والے سائنسدانوں اورکارکنوں کے لیے 10 ارب ڈالر امداد پر مبنی ارتھ فنڈ کا بھی اعلان کرچکے ہیں۔
تحفظ ماحول کے لیے سرگرم تنظیم جرمن واچ کا تجزیہ
ماحولیات پر کام کرنے والی عالمی تنظیم 'جرمن واچ کے گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس کے حصول کے لیے موسم سے وابستہ واقعات( مثلاًطوفان،سیلاب اور ہیٹ ویو) کامختلف ممالک پر اثرات کا جائزہ لیا گیا۔
گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس کے مطابق ،1999 سے 2018 تک پیورٹو ریکو ، میانمار اورہیٹی جیسے غریب ترین ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
انتہائی موسمی واقعات کے اثرات کا سامنا سب سے زیادہ غریب ممالک کو ہے جس کی وجہ خطے میں تباہ کن اثرات کی موجودگی اور مقابلے کی کم صلاحیت کا ہونا بھی ہے۔ ممکنہ طور پر ایسے ممالک کو اپنی تعمیر نو اور بحالی کے لیے طاقتور ممالک سے کہیں زیادہ وقت بھی درکار ہوسکتا ہے۔
جرمن واچ کا کہنا ہے کہ کلائمٹ رسک انڈیکس موجودہ کمزوریوں کے لیے سرخ جھنڈے کا بھی کام کرسکتا ہے جب کہ اس میں ہونے والا مزید اضافہ پیش آنے والے واقعات بھی شدید ترین کرسکتا ہے ۔
اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کون سے ممالک 2018 میں موسمی اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ ان ممالک میں پیش آنے والی موسمیاتی تبدیلی کی تباہ کاریوں کے اثرات کا مطالعہ یہ جاننے بھی میں مدد دے سکتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلوں سے جن ممالک کو سب سے زیادہ خطرات در پیش ہیں وہ کون سے ہیں؟
2018 میں جاپان کو تین بڑے اور غیر معمولی موسمی واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔
جولائی میں ہونے والی موسلا دھار بارش کے نتیجے میں جاپان میں سیلاب اور مٹی کے تودے گرنے سے 200 سے زائد افراد ہلاک جب کہ 5 ہزار سے زائد مکانات متاثر ہوئے۔ دوسری جانب 23 لاکھ افراد کا انخلاء بھی سامنے آیا۔ ان غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں جاپانی معیشت کو 7 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
جولائی کے وسط سے اگست کے آخر تک پڑنے والی شدید گرمی سے جاپان میں 138 افراد ہلاک ہوئے جب کہ 70 ہزار سے زائد افراد کو ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے اسپتال میں داخل کیے جانے ضرورت پیش آئی۔
ستمبر میں طوفان جیبی کے مغربی ساحل سے ٹکرانے کے باعث بلند سمندری لہروں اور 172 کلومیٹر فی گھنٹہ کی تیز رفتار سے چلنے والی ہواؤں نے جاپان میں متعدد ریکارڈ توڑڈالے، ان کے نتیجے میں بھی معیشت کو 13 بلین ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
2018 میں فلپائن کے شمالی حصے میں 270 کلو میٹر کی رفتار سے آنے والا طوفان منگھوت ٹکرایا ، طوفان نے ڈھائی لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا جب کہ شدید بارشوں اور مٹی کے تودے گرنے سے 59 افراد لقمہ اجل بن گئے ۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہ ممالک میں حیرت انگیز کے طور پر جرمنی تیسرے نمبر پر موجود ہے جہاں شدید ہیٹ ویو کے باعث 2018 کو ملک کا گرم ترین سال قرار دیا گیا۔
اس برس اپریل اور مئی کے درمیانی عرصے میں جرمنی میں اوسطاً درجہ حرارت 40 ڈگری سے زائد ریکارڈکیا گیا۔ ہیٹ ویو کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
نیز ملک میں خشک سالی کے باعث 8000 کسانوں کو نقصانات کی تلافی کے لیے تقریباً 1.18 ارب ڈالر کے ہنگامی امداد کی تجویز پیش کرنا پڑی۔
جنوری 2018 میں مڈغاسکر میں 181 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے طوفان آوا ٹکرایا۔ طوفان کے باعث جزیرے کا مشرقی حصہ زمین بوس ہوگیا دوسری جانب شہروں میں سیلاب اور عمارتیں گرنے کے واقعات سے 181 افراد ہلاک ہوگئے۔
مارچ میں طوفان الیاکیم نے 15 ہزار افراد کو متاثر کیا جبکہ اس طوفان کی تباہ کاریوں میں 17 اموات اور 6300 افراد کا انخلاء بھی سامنے آیا ۔
پاکسان کا پڑوسی ملک بھارت موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر موجود ہے۔
2018 میں جون سے ستمبر تک جاری رہنے والے مون سون سیزن نے بھارت کو شدید متاثر کیا۔ اس دوران سیلاب کے باعث لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں324 افراد موت کے منہ میں چلے گئے (ہلاک ہونے والے افراد کی یہ تعداد ایک صدی کی سب سے بڑی تعداد تھی)۔
طوفان کے سبب 2لاکھ20 ہزار سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے جب کہ 20 ہزار مکانات اور 80 ڈیم تباہ ہوگئے جس سے معیشت کو 2.8بلین ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
اکتوبر اور نومبر میں بھارت کے مشرقی ساحل سے 150 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والاطوفان تتلی اور گاجا ٹکرایا جس کے باعث8 افراد ہلاک ہوئے اور ساڑھے چار لاکھ افراد کو بجلی کے بغیر رہنا پڑا۔
مئی 2018 میں ہونے والی مون سون بارشوں سے سری لنکا کے جنوبی اور مغربی ساحل کے 20 اضلاع شدید متاثر ہوئے ۔
اس دوران سری لنکا کے شہر گال میں 24 گھنٹے کے دوران 6 انچ بارش ریکارڈ کی گئی شدید بارشوں نے ایک لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد متاثر کیا۔ 24 افراد لقمہ اجل بنے جبکہ اور 6000 افراد بے گھر ہوگئے۔
موسمی بارشوں سے مشرقی افریقی ممالک کے دوسرے ممالک کی طرح کینیا اور روانڈا بھی شدید متاثر ہوئے۔ مارچ سے جولائی کے درمیان مشرقی افریقی ملک کینیا میں سیزن کی بارشیں دو بار ریکارڈ کی گئی۔
چنانچہ وسطی پہاڑیوں میں ملک کے سب سے اہم دریا امنڈنے سے 47 میں سے 40 کاؤنٹیاں متاثر ہوئیں جب کہ 183 افراد ہلاک ،97 زخمی اور 3 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے۔
مشرقی افریقا کے ملک روانڈا کے دریائے سیبیا میں 2018 میں ہونے والی شدید بارشوں کے سبب سیلاب آگیا۔ سیلاب سے 5 ہزار خاندانوں کے 25 ہزار افراد متاثر ہوئے جب کہ طوفان کے باعث ملک بھر میں ہیضے اور مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماری چکن گونیا کی وبا بھی پھیل گئی۔
کینیڈا نے 2018 کا آغاز انتہائی درجہ حرارت49 ڈگری فارن ہیٹ (100 سال میں سب سے کم درجہ حرارت والا سال ) سے کیا۔
مئی میں برطانوی کولمبیا کے جنوبی حصے میں آنے والے سیلاب سے 4000 سے زائد افراد بے گھر ہوگئے۔ اپریل میں ہائی ٹمپریچر کے باعث پگھلنے والی برف سے دریاؤں کا بہاؤ تیز ہوگیا۔
اسی دوران خطے میں جنگل میں لگنے والی بدترین آگ کے سبب 16000 افراد کاانخلاء کیا گیا۔
بحر الکاہل کے جزائر فجی کو اس برس( اپریل اور مئی کے درمیان )تین طوفانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 78 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والا طوفان گیتا فجی کے جنوب میں پہنچا اور ایک ملین ڈالر سے زائد کے نقصان کا سبب بنا۔ یہی نہیں اس طوفان کے باعث 288 افراد بھی بے گھر ہوئے۔
دو ہفتوں بعد طوفان جوسی اور شدید سیلاب نے8 افراد ہلاک کیا جب کہ 2 ہزار سے زائد افراد اس دوران بے گھر ہوئے۔
طوفان کینی جزیرے فجی کے لیے اس برس کا آخری طوفان تھا جس کے باعث تقریباً9000 افراد بے گھر ہوئے۔