22 نومبر ، 2020
آج اتوار ہے۔ نسلوں کے درمیان رابطے کا دن۔ کم از کم تین نسلیں تو آج آپس میں ملتی ہیں۔ دادا۔ دادی۔ نانا نانی۔ ماں باپ۔ بچے بچیاں۔ نئی نسل جسے آٹھ دس سال بعد ملک سنبھالنا ہے۔ وہ ہم سے کہیں زیادہ تیز ذہن رکھتی ہے۔ اس کی سوچ کے آفاق بہت وسیع ہیں۔ ان کی فکر کے زاویے آج کی ضرورت کے مطابق ہیں۔ ہماری سوچیں تو زیادہ تر بیسویں صدی کے سانچوں میں ڈھلی ہوئی ہیں۔ آج میں آپ سے بلوچستان کے عظیم ضلع چاغی میں موجود سونے کے خزانوں پر بات کرنا چاہتا ہوں۔
چاغی کو ہم اپنے ایٹمی تجربوں کی وجہ سے جانتے ہیں لیکن دنیا بھر میں معدنیات کے ماہرین یہاں سونے۔ تانبے۔ چاندی اور دوسری قیمتی دھاتوں کے ذخائر کے حوالے سے اسکے قدردان ہیں۔ اور وہ سب حیرت میں ہیں کہ یہ پاکستانی کیسی قوم ہیں کہ ان کے پاس اربوں ڈالر کے معدنی وسائل ہیں۔ 5½کروڑ کو غربت کے کنویں سے باہر نکالنے کیلئے اس سونے تانبے کو استعمال کرنا ان کی ترجیح نہیں ہے۔ ان کے مسائل کا حل چاغی میں ہے۔ مگر یہ واشنگٹن میں کشکول پھیلائے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے باہر کھڑے رہتے ہیں۔
آپ کو آج اپنے بچوں کو یہ ولولۂ تازہ دینا ہے کہ وہ کسی کے آگے دست طلب دراز نہیں کریں گے۔ یہیں اپنی سر زمین میں ہی چھپے خزانے باہر نکالنے ہیں۔ ﷲ تعالیٰ نے ہمیں جن نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان سے اپنی ضرورتیں پوری کرنی ہیں۔ قرضے لینے کا لفظ ہی اپنی لغت سے نکال دینا ہے۔ میں آج ریکوڈک(ریت کی چوٹی) کا تذکرہ اس لیے لے کر بیٹھا ہوں کہ پیدا کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں۔ پاکستان کے کچھ درد مند صاحب بصیرت ارب پتیوں کو قادر مطلق نے توفیق دی ہے۔ بڑی ہمت کرکے پاکستان کو درپیش بین الاقوامی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے انہوں نے نیشنل ریسورس لمیٹڈ کمیٹی قائم کی ہے۔ بہت دُشوار گزار راہ ہے۔ درمیان میں چھ ارب ڈالر کے جرمانے کا سانپ ہے۔ عالمی بینک کے ادارے۔ آی سی ایس آئی ڈی۔ سرمایہ کاری کے تنازعات طے کرنے کے بین الاقوامی مرکز نے حکومت پاکستان پر چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا ہوا ہے کیونکہ ہم نے اپنے معاہدوں کا پاس نہیں کیا۔ جس کمپنی سے 1993اور 2006 میں معاہدے کیے۔ اس کے لائسنس منسوخ کردیے۔ یہ سوچے بغیر کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔
یہ جرمانہ پاکستان کے اپوزیشن اور حکومت کے سیاستدانوں۔ ججوں۔ بیورو کریسی کی بیمار سوچ کو بے نقاب کرتا ہے۔ قومیں خود انحصاری کا راستہ اختیار کرتی ہیں۔ ہم قرضوں کو اصل منصوبوں پر خرچ کرنے کی بجائے اشرافیہ کی املاک اندرون ملک بیرون ملک بڑھانے پر صَرف کرنے کے عادی ہیں۔ ہم پر جو 36ہزار ارب روپے قرضہ ہے۔ کسی کو علم ہے کہ اتنا روپیہ کونسی عمارتوں۔ کونسے ڈیموں۔ کونسی سڑکوں پر خرچ ہوا۔میں تو ریکوڈک پر کئی دہائیوں سے لکھ رہا ہوں۔ اب نیشنل ریسورس لمیٹڈ بننے اور ان کی طرف سے کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ کارپوریشن سے سلسلہ جنبانی سے مجھے پھر سرنگ کے آخر میں روشنی دکھائی دینے لگی ہے۔ میں نے عارف حبیب صاحب سے برقی رابطہ کیا۔ ماہرین سے جاننے کی کوشش کی۔ تانبے کی کان کنی میں چلّی سب سے آگے ہے۔ کراچی میں چلّی کے اعزازی قونصل جنرل انور صالح 2010 سے مجھے سقوط ریکوڈک کا پس منظر بتارہے ہیں۔ ان سے بھی گفتگو کی۔ بہرام ڈی اواری سے بھی برقی رابطہ کیا۔ کامرس وزارت کے جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے ارتقا زیدی صاحب سے مشاورت کی۔ انہوں نے تفصیلی ای میل بھیجی۔ وقار مسعود صاحب آج کل مصروف ہیں۔ ان کے بھی جواب کا انتظار ہے۔
چاغی کے پہاڑوں میں پہلے صرف تانبے کی موجودگی کی اطلاع تھی۔ یہ 6بلین ڈالر کا منصوبہ تھا۔ جس میں 52فی صد پاکستان کا حصّہ۔ 48فی صد چلّی کی کمپنی ٹی تھیان کا۔ پاکستان نے 52فی صد میں سے 25فیصد بلوچستان حکومت کو دینے تھے۔تانبا نکال کر ریفائنری میں بھیجنے کے لیے کمپنی چاغی سے گوادر تک 650کلومیٹر پائپ لائن بچھاتی۔ جس سے یہ مواد بندرگاہ پر کھڑے بحری جہازوں میں لد جاتا۔ چاغی میں چھوٹا سا ایئرپورٹ بھی بنایا گیا۔ جائزے کے دوران پتا چلا کہ یہاں آٹھ سے نو فیصد سونا بھی ہے۔ اس کمپنی کی مہارت صرف تانبے کی تھی۔ سونے کے لیے بیرک گولڈ سے معاہدہ ہوا۔ 2000میں کام شروع ہوا۔ کمپنی کے بقول 800ملین ڈالر خرچ ہوئے۔ اس کے بعد 20اگست 2010کو انہوں نے مائننگ لائسنس کی درخواست دی۔ جہاں سے تنازع شروع ہو گیا۔ سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر ہوئیں۔ 1993اور 2006کے معاہدے۔ سب غیرقانونی قرار دیے گئے۔ ٹی تھیان کمپنی نے عالمی بینک کے بین الاقوامی مرکز تنازعات میں اپیل دائر کی۔ 2017میں پاکستان پر چھ ارب ڈالر جرمانہ عائد کردیا گیا۔ حکومت پاکستان کے وکلاء کی محنت اس حد تک رنگ لائی کہ فی الحال جرمانے کی فوری ادائیگی میں مہلت دی گئی ہے۔ لیکن کسی بین الاقوامی بینک کے ذریعے جرمانے کے 25فیصد کی گارنٹی جمع کروانے کے لیے کہا گیا ہے۔ آئندہ سماعت مئی 2021میں ہوگی۔
حکومت اور اپوزیشن تو اپنے بیانیوں کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ترجمان لکڑی کی تلواریں سونتے کھڑے ہیں مگر پاکستان کے چار صنعتی گروپوں نے ملک کے مستقبل کی فکر کی ہے۔ یونس برادرز۔ عارف حبیب۔ فاطمہ گروپ۔ لبرل گروپ اکٹھے ہوکر اپنے ملک کو اس مالی بحران سے نکالنے کے لیے نیشنل ریسورس کے پرچم تلے میدان میں نکلے ہیں۔ بیرک گولڈ سے رابطہ کررہے ہیں۔ اصل مسئلہ جرمانے کی ادائیگی ہے جو ناقابل تنسیخ ہے۔ اس پل کو عبور کرکے ہی سونے کے خزانے تک پہنچا جاسکتا ہے۔ عارف حبیب پُر امید ہیں۔ ممکن ہے ٹی تھیان ماورائے عدالت معاملہ طے کرنے پر تیار ہوجائے۔ پھر ریکوڈک پر کام شروع ہوجائے گا۔
میں تو ﷲ کا شکر ادا کررہا ہوں کہ جب سیاسی اور فوجی قیادتیں اس انتہائی سنگین مسئلے کو ترجیح نہیں دے رہی ہیں۔ کسی بیانیے میں کسی تقریر میں کسی ٹویٹ میں آپ ریکوڈک کا ذکر بھی نہیں سنتے۔ حالانکہ یہ جرمانہ ہماری پہلے سے ڈانواں ڈول معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہمارے تو زر مبادلہ کے اپنے ذخائر بھی اتنے نہیں ہیں۔ ہمیں دُعا کرنی چاہئے کہ ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو۔ بلوچستان کے سینکڑوں نوجوانوں کو روزگار ملے۔
ہم 2022 میں اپنی ڈائمنڈ جوبلی قرضوں سے آزاد ہوتے ملک کی حیثیت سے منا سکیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔