29 نومبر ، 2020
کورونا آ نہیں رہا، واپس آگیا ہے۔ پہلے سے زیادہ خطرناک اور جان لیوا شکل میں واپس آگیا ہے۔ سردی کے نتیجے میں فلو، نمونیا، زکام اور دوسرے امراض کے ساتھ مل کر پہلے سے زیادہ تباہ کن ہو گیا ہے۔ سرکاری ونجی ہسپتالوں میں بیڈز اور وینٹی لیٹرز کم پڑ گئے ہیں۔ اسلام آباد کے پمز اسپتال میں او پی ڈی بندکردی گئی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اب کی بار میڈیا پر اس کا غلغلہ ہے اور نہ حکومت کچھ کرتی نظر آرہی ہے۔ وہ صرف اور صرف سیاست کررہی ہے اور وہ بھی کورونا کے نام پر ۔
حقیقت یہ ہے کہ کورونا کی پہلی لہر کے کم خطرناک ہونے میں حکومتی پالیسی کا کوئی دخل تھا اور نہ اقدامات کا۔ وہ ﷲ کی غیبی مدد تھی جو پاکستان اور افغانستان میں نظر آئی ۔شاید ﷲ نے یہ سوچ کر رحم کھایا ہو کہ ان ملکوں میں یوں بھی روزانہ سینکڑوں مررہے ہیں تو کورونا میں ان کا حصہ کم ڈالو۔ہمارے ارباب اختیار کی سنگدلی دیکھ لیجئے کہ کورونا کی دوسری لہر اکتوبر کے مہینے میں شروع ہوئی لیکن کئی ہفتے تک حکومت اس کی سنگینی کو قوم کے سامنے نہیں لائی۔ پہلے مرحلے میں چونکہ ﷲ کے خصوصی کرم کو اپنے کھاتے میں ڈال کر اس قدر زیادہ کریڈٹ لیا جاچکا تھا کہ اب کی بار شرم کے مارے اعلان نہیں کرسکتے تھے کہ عمران خان اور اسد عمر کے ہوتے ہوئے بھی کورونا واپس لوٹ آیا ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ گلگت بلتستان کے الیکشن کو اپنے نام کرنا تھا اور اس کے لئے وزرا کا وہاں جلسے جلوسوں سے خطاب کرنا اور سرکاری وسائل کی بندربانٹ ضروری تھی، اب جبکہ وہ مقصد پورا ہوگیا تو حکومت نے اپوزیشن کے جلسوں کو روکنے کے لئے کورونا کا شور مچانا شروع کردیا۔ لیکن اب اپوزیشن ضد پر اڑی ہوئی ہے۔ پی ڈی ایم کے رہنما کہہ رہے ہیں کہ جب وزیراعظم سوات جیسے سرد علاقے میں جلسے کرسکتے ہیں اور ان کے وزرا گلگت بلتستان کے یخ بستہ پہاڑوں میں کورونا اور الیکشن رولز کی ایسی تیسی کرسکتے ہیں، تو وہ جلسے کیوں نہ کریں؟
تاہم حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے بھی ظلم کیا اور اب اپوزیشن والے بھی ظلم کررہے ہیں۔اگر اپوزیشن ایک ماہ تک جلسے جلوس معطل کرلے تو کونسی قیامت آجائے گی ؟ یہ تو بلاول بھٹو، قمرزمان کائرہ ، کیپٹن صفدر ، ڈاکٹر مصدق ملک، راجہ پرویز اشرف اور اسی نوع کے دیگر نمایاں افراد ہیں جن کے ٹیسٹ ہوجاتے ہیں اور علاج کی مناسب سہولتیں بھی ان کو مل جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ روزانہ ہزاروں لوگ متاثر ہورہے ہیں لیکن ان کو ٹیسٹ کی سہولت میسر ہے اور نہ علاج کی۔ قوم توقع کررہی تھی کہ شوکت خانم کے تجربے کی وجہ سے اور کچھ نہیں تو کم از کم عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد صحت کے شعبے میں بہتری لائیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صحت کا شعبہ جتنا اس دور میں تباہ ہوا، پہلے کبھی نہیں تھا۔ حالت یہ ہے کہ اسلام آباد کے پمزاسپتال میں کوئی علاج کے لئے جانے کا رسک نہیں لیتا۔ پختونخوا کے سرکاری اسپتالوں کا تو خان صاحب نے اپنے کزن نوشیروان برکی کے ذریعے بیڑہ غرق کروادیا اور رہی سہی کسر اب تیمور جھگڑا پوری کررہے ہیں۔ گزشتہ روز مجھے پتہ چلا کہ پشاور کے سب سے بڑے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں اوپن ہارٹ سرجری کا شعبہ بند ہوگیا ہے اور بیشتر سینئر ڈاکٹر نوشیروان برکی کے رویے سے تنگ آکر نجی اسپتالوں میں یا پھر بیرون ملک چلے گئے ۔مرکز میں پہلے ایک چہیتے وزیر صحت تھے۔ دوائیوں کا اسکینڈل آیا تو ان کی وزارت تبدیل کر دی گئی لیکن کوئی محاسبہ نہ ہوا۔ پھر ڈاکٹر ظفر مرزا مشیر صحت بنائے گئے ۔ انہوں نے استعفیٰ دیا یا فارغ کردئیے گئے لیکن قوم نہیں جانتی کہ کیوں؟، اب عمران خان نے شوکت خانم کے ڈاکٹر فیصل کو مشیرِ صحت بنادیا ہے، دیکھتے ہیں وہ معاملات کو کیسے سنبھالتے ہیں لیکن سردست تو صورت حال یہ ہے کہ ملک میں فلو اور نمونیا کی ویکسین بھی دستیاب نہیں۔ میں نے وجہ معلوم کی تو پتہ چلا کہ ماضی میں اس کے لئے سردی شروع ہونے سے قبل بیرون ملک آرڈر دیے جاتے تھے لیکن امسال تبدیلی سرکار یہ کام کرنا بھول گئی جبکہ امسال بیرون ملک کورونا کی وجہ سے ان کا استعمال زیادہ ہے، اس لئے نجی شعبہ کو بھی حصول میں مشکل پیش آرہی ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیر صحت اصل میں وزیر خزانہ ہیں اور ان کے پاس صحت کا اضافی چارج ہے۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں کیمرہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر انہوں نے ایسا تاثر دیا ہوا ہے کہ جیسے خیبرپختونخواکے اسپتال یورپ کے مقابلے میں آگئے ہیں لیکن آپ چھوٹے شہروں تو کیا، پشاور کے بڑے اسپتالوں میں بھی جاکر حالت زار دیکھ لیں تو رونا آجائے گا۔ لاک ڈاؤن نہ کرنے کے لئے عمران خان یہ دلیل دے رہے ہیں کہ وہ گویا غریبوں کی وجہ سے بہت پریشان ہیں اور خدانخواستہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں غریب بھوکوں مرجائیں گے لیکن ریڈیو پاکستان کے سیکڑوں غریب ملازمین کو شبلی فراز کے ذریعے نوکریوں سے نکالتے وقت انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ کئی سال تک اپنی زندگیاں اس آرگنائزیشن کے نام کرنے کے بعد اب یہ لوگ کہاں جائیں گے؟ دوسری طرف سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے نقادوں کو گالیاں دینے والے درجنوں لوگوں کو اسی شبلی فراز کی وزارت میں لاکھوں روپوں کی تنخواہوں کے عوض اونچے گریڈوں میں بھرتی کیا گیا تاکہ حکومتی ناکامیوں کو کامیابیاں ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ نقادوں کو خوب گالیاں دی جا سکیں۔ افتخار درانی کو استاد بنا کر بڑی تیزی کے ساتھ شہباز گل بنتے جارہے ہیں اور ان کی وزارت میں وہ تمام کام مزید شدت سے ہونے لگے ہیں جو پہلے ہوا کرتے تھے۔ لگتا ہے کہ موجودہ حکومت پر جنات کا سایہ ہے، اس لئے ایسے فیصلے کررہی ہے کہ جس کی کسی کو سمجھ نہیں آتی۔ مثلاً اگر لاک ڈاؤن نہیں کرنا تو پھر تو عقل کا تقاضا یہ ہے کہ بازاروں اور ریسٹورانوں کو چوبیس گھنٹے کھلا رکھا جائے تاکہ وہاں رش نہ ہو۔ اب جب اوقات کار کم کرکے دس بجے تک کردیے گئے ہیں تو رش بڑھ گیا ہے۔ یوں یا تو لاک ڈاؤن کرلیا جائے یا پھر تمام بازار، دکانیں اور کاروبار چوبیس گھنٹے کھلے رکھے جائیں تاکہ رش نہ ہو۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔