16 دسمبر ، 2020
16 دسمبر 2014، کو گزرے پورے چھ سال ہو چکے ہیں لیکن آج بھی سانحہ آرمی پبلک اسکول کے المناک سانحے کا درد آج بھی برقرار ہے۔
اس دن کو پاکستان کی تاریخ کا المناک ترین دن قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا جب پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں 7 دہشت گردوں نے داخل ہو کر خون کی ہولی کھیلی اور 140 سے زائد طالبعلوں اور ان کے اساتذہ کو شہید کردیا اس دہشت گردی کے نتیجے میں متعدد طالبعلم زخمی بھی ہوئے ۔
بہرحال ایک قیامت تھی جوکروڑوں دلوں کو خون کے آنسو رلا کر ، سیکڑوں گھروں کے چراغ بجھا کر گزرگئی ، لیکن اس سانحہ میں سیکڑوں خوش قسمت طالبعلم ایسے بھی تھے جو موت کے منہ سے بچ کر زندگی کی طرف لوٹ آئے۔
لیکن اس المناک سانحے نے ان معصوم طالبعلموں کی زندگیوں پر کیا اثرات چھوڑے اور کس طرح یہ بچے اس صدمے سے زندگی کی طرف دوبارہ لوٹے، آئیے انہی کی زبانی جانتے ہیں۔
ملک حسن طاہر اعوان سانحہ اے پی ایس کے شہداء میں شامل ’’ملک اسامہ طاہر اعوان ‘‘ کے بھائی ہیں ، ملک حسن طاہر اعوان خوش قسمتی سے دہشتگردوں کی گولی کا نشانہ بننے کے باوجود ،اسکول سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب رہے ۔
ملک حسن طاہراعوان کااس خوفناک واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہناتھا کہ اس روز کلاس میں دو پیریڈ گزرجانے کے بعدہمیں فرسٹ ایڈ ٹریننگ کے لیے دیگر سیکشنز کی طرح آڈیٹوریم میں جمع ہونے کا کہا گیا ۔
آڈیٹوریم جاتے ہوئے عقبی قطار میں لگے اسامہ (بھائی )کی آخری مسکراہٹ آج بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی ، ملک حسن کہتے ہیں وہ ملاقات میری اور اسامہ کی آخری ملاقات تھی ۔
آڈیٹوریم میں ٹیچر نے مجھے کیپ اوپر کر نے کو کہا (انہیں شک تھا کہ کہیں ہم نے کانوں میں ہیڈ فون نہ لگائے ہوئے ہوں )میں نے جیسے ہی کیپ اوپر کیا آڈیٹوریم ہال اندھا دھند فائرنگ کی آوازوں سے گونج اٹھا۔
حسن بتاتے ہیں کہ اس کے فوراً بعد ہی انھوں نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آڈیٹوریم سے بھاگنے کی کوشش کی جس میں میرے جوتے بھی اتر گئے، شوز لینے جب میں واپس مڑا تو دہشت گرد کی نظروں میں آگیا اور اس نے مجھے اور میرے دائیں بائیں کھڑے ساتھیوں کو نشانہ بنایا میرے دونوں ساتھی اس کی گولی کا نشانہ بن گئے۔
دہشت گرد کی اگلی گولی میرے لیے تھی لیکن خوش قسمتی سے وہ گولی میرے سر پر لگنے کے بجائے میری اوپر ہوئی کیپ پر لگی اور وہ اڑگئی،جس کے باعث میں بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
حسن طاہر کہتے ہیں کہ اے پی ایس سانحے میں بچ جانے والے طالبعلموں کے لیے اس سانحہ کو بھلانا ناممکن ہے اس واقعے کے ہر ذہن پر انمٹ نقوش تاحیات موجود رہیں گے۔
ملک حسن نے ہمیں بتایا کہ اس سانحے کے تقریباًایک ماہ بعد جب اسکول دوبارہ جانا شروع کیا تو ہر شے اجنبی اجنبی سی لگی اب نہ پڑھنے کو دل کرتا تھا نہ کھیلنے کودنے کو ،سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ ٹیچرز کیا پڑھا رہے ہیں ہر لیکچر کو گھنٹوں بار بار پڑھنا پڑھتا تب بھی وہ دماغ میں نہ بیٹھتا تھا کیونکہ وہاں صرف آڈیٹوریم میں سانحے کے دن گرا دوستوں کا خون اور بھائی کا ہنستا مسکراتا نظروں کے سامنے رہتا۔
حسن کہتے ہیں کہ اب تو جینے کا اصل مقصد ہی بھائی (اسامہ) کے مقصد کی تکمیل کرنا ہے اسامہ وطن عزیز کے لیے ایک ایسا سوفٹ ویئر تیار کرنا چاہتے تھے جس کے تحت مسلح دہشت گردوں کے اجتماعی جگہوں پر داخلے سے قبل سکیورٹی اداروں کو آگاہی حاصل ہوسکے تاکہ ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی لائی جاسکے۔
اے پی ایس سانحہ میں دہشت گردوں کی گولی کا نشانہ بن جانے کے باوجود بچ جانے والے خوش قسمت طالبعلم حسن بن قیصر کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے میرے ہاتھ اور پیر پر فائرنگ کی گئی جس کے بعد میں شدید زخمی ہوکر آڈیٹوریم میں ہی گر گیا ۔
دہشت گردوں کو محسوس ہوا کہ دیگر بچوں کی طرح میں بھی شہید ہوگیا ہوں، دہشت گردوں کے آڈیٹوریم سے نکلنے کے بعدمیں زخمی حالت خود کو گھسیٹتا ہوا باہر لایا اور ایک استاد کے موبائل فون کے ذریعے گھر پر اطلاع دی اسی دوران میری نظر سکیورٹی گارڈ پر پڑی اور میں نے انھیں اپنی موجودگی کی اطلاع دی۔
گارڈز مجھے گاڑی میں ڈال کر سی ایم ایچ اسپتال لے گئے۔
اس صدمے سے نکلنے کے لیے حکومت پاکستان کی جانب سے مجھے اور میرے والدین کو عمرہ بھی کروایا گیا۔
حسن بن قیصر کہتے ہیں کہ میرے جسم پر گولیوں کے نشان آج بھی موجود ہیں اس سانحے سے نکلنے میں کئی ماہ لگے اس دوران میں نے پیپر بھی رائٹر کے ہمراہ دیے لیکن کبھی خوف محسوس نہیں ہوااور اسکول کھلتے ہی پہلے دن ہی اسکول جوائن کرلیا ۔
احمد جان اے پی ایس سانحہ میں شہید’’ بہادرایمل خان‘‘ کے بھائی ہیں۔ ایمل خان کے بھائی احمد جان کے مطابق انہیں ایمل کے بچ جانے والے دوستوں نے بتایا تھا کہ ایمل خان سانحے کے روزاساتذہ اور دیگر طالبعلموں کی جان بچانے کے لیے ایک دہشت گرد کو دبوچنے میں کامیاب ہوگئے تھے تاہم اگلے ہی لمحے دوسرے دہشت گرد نے ایمل خان کے چہرے پر وار کرکے انھیں اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا۔
احمد جان نے ہمیں بتایا کہ دہشت گردوں کی فائرنگ کے بعد ٹیچر نے ہمیں اپنی جگہوں پر ہی لیٹ جانے کا اشارہ کیا لیکن دہشت گردوں کے نشانے اتنے تیز تھے کہ ان کی ہر گولی بچوں کےدل یا دماغ کو چھو رہی تھی اسی اثناء میں دو شہید طلباء مجھ پر آگرے ان کا خون ٹپکہ ٹپکہ میری شرٹ کو بھگورہا تھا لیکن جان کی حفاظت کے لیے آواز اور خوف دونوں پر قابو رکھنا ضروری تھا اور مجھ سمیت کئی طالبعلموں نے ایسا ہی کیا کئی ڈیسکوں کے پیچھے چھپے بچوں نے تو اپنی آوازوں پر قابو رکھنے کے لیے اپنے منہ میں رومال اور ٹائیاں ٹھونس لی تھی۔
احمد بتاتے ہیں کہ اس دوران ہمارے ایک استاد کا کردار ناقابل فراموش ہے، ہماری ایک خاتون استاد نے جب دہشت گرد سے بچوں کو نہ مارنے کی درخواست کی تو دہشت گرد نے ہماری ٹیچر پر کیمیکل پھینک کر ہماری آنکھوں کے سامنے ہی انہیں جلادیا ۔
احمد اب پشاور سرحد یونیورسٹی میں سوفٹ ویئر انجینئرنگ کے طالبعلم ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس خوفناک حادثے کے بعد میری والدہ میری پڑھائی جاری رکھنے کے خلاف ہوگئی تھیں لیکن ہمیں پھر سی ایم ایچ اسپتال کی جانب سے ماہرین نفسیات دیے گئے جنہوں نے اساتذہ کے ساتھ مل کر مجھے اور میری فیملی کو اس صدمے سے نکلنے میں کافی مدد کی انہیں لوگوں کی بدولت میرے والدین مجھے دوبارہ اسکول بھیجنے پر رضامند ہوئے
اے پی ایس سانحہ میں بچ جانے والے ایک اور خوش قسمت طالبعلم محمد معین ملک کا کہنا ہے کہ آڈیٹوریم میں فائرنگ شروع ہونے کے بعد پہلے پہل توہمیں محسوس ہوا کہ مسلح دہشت گردوں کا آڈیٹوریم میں داخلہ اور فائرنگ فرسٹ ایڈ ٹریننگ کا حصہ ہے لیکن پھر اپنے ہی جگری یاروں کی سانسیں شدید گولیاں لگنے کے سبب اکھڑتے دیکھنا ہمیں اصل صورتحال سے آگاہ کرگیا ۔
حقیقی صورتحال بھانپنے کے فوراًبعد ہی میں آڈیٹوریم سے بھاگنے کے بجائے وہیں شہید ہوئے بچوں کے پاس لیٹ گیا تاکہ دہشت گردوں کو محسوس نہ ہو کہ میں زندہ ہوں مجھ پر گرا خون بھی انھیں یہ محسوس کروانے کے لیے کافی رہا، جب دہشت گرد آڈیٹوریم سے چلے گئے میں پھر وہاں سے نکلا اور خوش قسمتی سے آرمی کے جوانوں نے مجھے ڈھونڈ لیا اور مجھے بحفاظت میرے والدین کے حوالے کیا۔
معین ملک کہتے ہیں مجھے ایسا لگتا ہے اسلامیات کے استاد سر سعید کو محسوس ہوگیا تھا کہ موت آن کھڑی ہے ان کے آخری لفظوں کو آج بھی نہیں بھول پاتا۔ فائرنگ سے قبل ہی سر سعید کا کہنا تھا کہ بچوں باتوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے درود شریف پڑھو زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ۔