13 جنوری ، 2021
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز وفاقی کابینہ میں پالیسی پر اختلاف رکھنے والے وزراء اور مشیروں کو کھری کھری سنائیں اور کہا کہ جب کوئی فیصلہ ہوگیا تو اس پر صرف ساتھ کھڑے ہونا ہے، جو تنقید کرنا چاہتا ہے نمبر ٹانکنا چاہتا ہے وہ استعفی دے اور پھر مخالف بیان دے۔
وزیراعظم کا اشارہ کن کن وزراء اور مشیروں کی طرف ہو سکتا ہے؟
گزشتہ روز عمران خان نے کہا کہ بات صرف وہ ہوگی جو گفتگو کے بعد طے ہو گی، جب ایک بار بات طے ہو گئی تو اختلاف کی گنجائش نہیں، جو بولے گا حتمی بات کو سامنے رکھ کر پالیسی پر بولے گا اور جو نمبر ٹانکنے سوشل میڈیا پر اختلاف کرے گا وہ بہتر ہے استعفی دے، گھر جائے اور پھر اختلاف کرے۔
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز وفاقی کابینہ اجلاس میں تنقیدی وزراء اور مشیروں کو آڑھے ہاتھوں لیا۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ وزیراعظم نے حکومتی وزراء کے واٹس ایپ گروپ پر بھی تنقید کرنے والوں کو خوب سنائیں، کہا جسے کوئی اختلافی بات کرنی ہے ذاتی طور پر بھیجے، گروپس میں لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔
آخر وزیراعظم کا اشارہ کن لوگوں کی جانب تھا؟ کون ہو سکتا ہے کی اس پزل گیم میں کابینہ ذرائع کا پہلا اشارہ ہے ندیم افضل چن اور شہباز گل کی جانب۔
جب وزیراعظم نے ہزارہ برادری کے لاشیں رکھ کر احتجاج میں نہ جانے کا فیصلہ کیا تو معاون خصوصی ندیم افضل چن نے سوشل میڈیا پر لکھا ’اے بے یارومددگا معصوم مزدوروں کی لاشو۔۔ میں شرمندہ ہوں‘۔
اس کا جواب دیا شہباز گل نے اور اسے عوام میں مقبول بیانیے کی طرف کا بیان قرار دیا، ساتھ یہ بھی کہا کہ چُپ رہنا میڈیا سے غائب ہو جانا آسان اور لیڈر کا دفاع کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ندیم افضل چن نے جواب دیا کہ آج کل مقبول بیانیہ تو سیاستدانوں کو گالیاں دینا ہے جو میں نہ پہلے دیتا تھا نہ اب دوں گا۔
کابینہ ذرائع کے مطابق دوسرا اشارہ ہو سکتا ہے وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کی جانب جنہوں نے کابینہ واٹس ایپ گروپ میں ہزارہ برادری کے ساتھ پیش آنے والے واقعے اور وزیراعظم کے بروقت نہ جانے کے فیصلے پر شدید اختلاف کیا تھا۔
کابینہ ذرائع کہتے ہیں تیسرا اشارہ ہو سکتا ہے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کی جانب جو واٹس ایپ گروپ پر اور کابینہ میں پنجاب حکومت کی کارکردگی پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور وہاں گورننس میں بہتری چاہتے ہیں۔
کابینہ ذرائع کے مطابق چوتھا اشارہ ہو سکتا ہے پارٹی پالیسی پر عمل درآمد پر مطمئن نہ کر پانے والے وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب کی جانب جن کو وزیراعظم آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ بجلی کے شعبے کی وجہ سے انہیں رات کو نیند نہیں آتی اور پھر مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد جو کابینہ ذرائع کے دعوے کے مطابق تاحال امیدوں پر پورے نہ اتر پائے۔
وزیراعظم کا اشارہ آٹا بحران، چینی کے ذمہ داروں کی جانب بھی ہوسکتا ہے۔ کابینہ ذرائع کے اشارے کچھ اور بھی ہیں مگر یہ سب کس حد تک درست ہیں اس بارے میں حتمی رائے نہیں دی جا سکتی تاوقت یہ کہ کوئی استعفیٰ آ جائے یا کسی کو گھر بھیج دیا جائے۔
ذرائع کی بات کم سے کم ندیم افضل چن کے حوالے سے درست معلوم ہوتی ہے جنہوں نے آج استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ وزیراعظم عمران خان کے ترجمان بھی تھی اور معاون خصوصی بھی۔
ممکنہ طور پر انہوں نے وزیراعظم کے ترجمان کے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے تاہم ذرائع کابینہ ڈویژن کا کہنا ہے کہ ندیم افضل چن کا استعفیٰ ابھی تک موصول نہیں ہوا۔