22 فروری ، 2021
سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں پیپلز پارٹی کے رہنما رضاربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریاست تو اپنے 20 ریٹرننگ افسران کو تحفظ نہیں دے سکی، قابل شناخت بیلٹ پیپر سےنئی بلیک میلنگ اورہارس ٹریڈنگ شروع ہو جائے گی۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بارہا پوچھا کیا کرپٹ پریکٹسز پرکوئی کارروائی ہوئی آج تک؟ جواب نہیں میں ملا، اختلاف رائے کرنے والے نتائج کی پرواہ نہیں کرتے، ڈکٹیٹر کے خلاف بھی لوگوں نے کھل کر اختلاف رائے کیا۔
سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔
سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے دلائل جاری رکھے اور کہا کہ بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ لگانے کی بات کی گئی، تلخ حقیقت یہ ہے کہ قابل شناخت بیلٹ پیپرز ' ڈیپ اسٹیٹ' کی پہنچ میں ہوگا، اگر بیلٹ پیپر قابل شناخت ہے تو اس کے بہت سے مسائل ہیں تاہم وہ الیکشن کمیشن پر کوئی الزام نہیں لگانا چاہتے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا تھیلوں میں بند بیلٹ پیپرز تک بھی کسی کی رسائی ہوتی ہے؟ رضا ربانی نے کہا 'ڈیپ اسٹیٹ' کی رسائی اب ملک سے بھی باہر ہوچکی ہے، ارکان سینیٹ اور اسمبلی بلیک میل ہو سکتے ہیں، ریاست تو اپنے 20 ریٹرننگ افسران کو تحفظ نہیں دے سکی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایسا کوئی معاملہ عدالت کے سامنے نہیں، بیلٹ پیپر پولنگ اسٹیشن پر ہی سیل کیے جاتے ہیں، ہم نے بارہا پوچھا کہ کیا کرپٹ پریکٹسز پر کوئی کارروائی ہوئی ؟ کوئی جواب نہیں ملا۔
رضا ربانی نے کہا کہ قابل شناخت بیلٹ پیپر کی وجہ سے ایک نئی قسم کی بلیک میلنگ اور ہارس ٹریڈنگ شروع ہو جائے گی، عدالت اچھی طرح جانتی ہے کہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں ویڈیو بننے میں کتنی دیر لگتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایم کیوایم اور پی ٹی آئی کے درمیان معاہدہ ہوا، پی ٹی آئی کراچی میں جلد مردم شماری کے لیے فنڈز جبکہ جواب میں ایم کیو ایم سینیٹ کے لیے پی ٹی آئی کو ووٹ دے گی،کیا عدالت اس عمل کو کرپشن قرار دے گی؟
اس موقع پر چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جائزہ لیں گے،سیاسی اتحاد خفیہ نہ رکھے جائیں،عدالت نے کیس کی مزید سماعت 23 فروری تک ملتوی کر دی۔