11 مارچ ، 2021
چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوگا ،سینیٹ کی موجودہ پارٹی پوزیشن دیکھیں تو اپوزیشن کے پاس 51 اور حکومت کے پاس 47 ارکان ہیں ۔
100ارکان کے ایوان بالا میں 99 ارکان موجود ہیں جب کہ مسلم لیگ ن کے اسحاق ڈار حلف نہ اٹھانے اور بیرون ملک ہونےکے باعث ایوان کا حصہ نہیں ہیں۔
اگر موجودہ اور نو منتخب سینیٹرز میں پاکسٹان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اتحاد کو اکھٹا دیکھیں تو ان کے ارکان کی تعداد 51 بنتی ہے۔
اس میں پیپلز پارٹی کے 21، مسلم لیگ ن کے 17، نیشنل پارٹی کے 2، پی کے میپ کے 2، جمیعت علمائے اسلام کے 5، بی این پی کے 2 اور اے این پی کے 2 ارکان شامل ہیں۔
حکومتی اتحاد کو دیکھیں تو پی ٹی آئی کے 27، بلوچستان عوامی پارٹی کے 12، ایم کیو ایم کے 3، مسلم لیگ فنکشل کا 1، مسلم لیگ ق کا 1 اور فاٹا کے 3 سینیٹرز شامل ہیں، اس طرح حکومتی ارکان کی تعداد 47 بنتی ہے ۔۔
ایسے میں ایک ووٹ بچتا ہے جو جماعت اسلامی کا ہے، جواب تک غیر جانبدار ہے ۔
یہ تو ہے سینیٹ الیکشن کی صورت حال لیکن سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں چند سوئنگ ووٹ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، ان میں ایک ووٹ تو جماعت اسلامی کا ہے جو حکومتی یا اپوزیشن اتحاد کسی کو بھی مل سکتا ہے یا وہ ووٹنگ سے غیر حاضر بھی رہ سکتے ہیں ۔
بلوچستان میں اے این پی اتحاد کا حصہ ہے ، ان کا ایک ووٹ حکومتی اتحاد کی جانب جا سکتا ہے ، ایسے ہی آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والی خاتون رکن بلوچستان عوامی پارٹی کے ووٹ سے کامیاب ہوئیں ، وہ بی این پی کا حصہ ہیں ، لیکن ان کا ووٹ حکومتی اتحاد کو جا سکتا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہو گا، لہٰذا اس میں سوئنگ ووٹ کا کلیدی کردار ہو سکتا ہے۔