29 مارچ ، 2021
امریکا نے روس اور چین کے خلاف ایک ساتھ دو محاذ کھول دیے ہیں۔ امریکا کے صدر جو بائیڈن نے روسی ہم منصب ولادیمر پیوٹن کو قاتل کہا ہے، یہ انتہائی غیرمعمولی صورتحال ہے کیونکہ عہدہ صدارت پر براجمان شاید ہی امریکا کے کسی صدر نے روسی ہم منصب کو کھلے عام قاتل قرار دیا ہو۔
جو بایئڈن اور ولادیمر پیوٹن ایسے صدور ہیں جو اپنے ممالک میں مختلف حیثیتوں میں طویل عرصےسے کسی نہ کسی صورت میں اہم عہدوں پر رہے ہیں، یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ دونوں صدور ایک دوسرے کی رگ رگ سے واقف ہیں۔
روس کی درپردہ اسٹریٹجی کیسی بھی ہو، صدر پیوٹن نے امریکی صدر کو جواب دینے کے لیے دھیما لہجہ ہی اختیار کیا ہے، انہوں نے صدر بائیڈن کے لیے قاتل کا لفظ تو استعمال نہیں کیا مگر یہ ضرور کہہ دیا کہ بچپن میں کوئی ایک بچہ جب کسی دوسرے کو بری بات کہہ دیتا ہے تو جو اچھا بچہ ہوتا ہے وہ جواب دینے کے لیے سخت الفاظ استعمال نہیں کرتا، بس یہ کہنے پر ہی اکتفا کر لیتا ہے کہ جو تم نے کہا وہ تم ہی ہو گے، یعنی بات بھی کہہ دی اور کہی بھی نہیں۔
امریکا اور روس کے درمیان اس کشیدگی کی یوں تو کئی ٹھوس وجوہات ہیں مگر اب ایک بڑا جواز یہ بھی پیدا ہو گیا ہےکہ امریکی انٹیلی جنس کے نزدیک روس نے اس بار بھی امریکی انتخابات میں مداخلت کی اور ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ صدر منتخب کرانے کی ناکام کوشش کی۔
امریکیوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ دور میں امریکا کی خارجہ پالیسی انتہائی منفی اثرات کی حامل رہی، بہت سے اتحادی ناراض ہوئے اور کچھ تو نسبتاً دور بھی چلے گئے، اگرٹرمپ دوبارہ منتخب ہو جاتے تو دھچکہ صرف ڈیموکریٹس ہی کو نہ لگتا بلکہ امریکا کو بحثیت سپر پاور مزید چار سال تک اور خمیازہ بھگتنا پڑتا۔
پچھلے دو عشروں میں روس بھی رفتہ رفتہ مزید مستحکم ہوا ہے، ماسکو نے واشنگٹن کو کئی محازوں پر اس انداز سے چیلنج کیا ہے کہ امریکا کے بڑھتے قدم روک دیے ہیں۔ شام اس کی سب سے بڑی مثال ہے کیونکہ روس نے بشارالاسد کو عوام کا منتخب صدر تسلیم کیے رکھا اور ان کی حکومت پلٹنے کی امریکی کوشش ناکام بنا دی، اب روس نے افغانستان کے محاذ پر بھی امریکا کو اپنی سیاسی طاقت کا زور دکھانا شروع کر دیا ہے ، ماسکو فارمیٹ کے تحت امن مذاکرات اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔
امریکا کو روس کا چیلنج تو ایک عرصے سے درپیش تھا ہی، پچھلے دو عشروں میں چین بھی بڑی طاقت بن کر ابھرا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بائیڈن انتظامیہ نے چین کو شروع ہی سے آڑے ہاتھوں لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ الاسکا مذاکرات، اسی رجحان کی ایک جھلک نظر آئے۔
عام طورپرجب وفود کی سطح پر بات ہوتی ہے تو میڈیا کو اس وقت کمرے میں آنے کی اجازت دی جاتی ہےجب وفود کمرے میں داخل ہو رہے ہوں یا بیٹھ چکے ہوں اور ایک دوسرے کے ساتھ علیک سلیک اور رسمی جملوں کا تبادلہ کریں، الاسکا میں اس کے یکسر برخلاف ہوا۔
امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے چینی وزارت خارجہ کے اعلی ترین حکام کو میڈیا کے سامنے کھل کر سنائیں۔ تائیوان، ہانگ کانگ، تبت اور چین کے اقتصادی منصوبوں پر وہ جملے کہے جن سے چینی وفد آگ بگولہ ہو گیا۔
بلنکن یہ سب باتیں اپنے اتحادی ممالک جاپان اور جنوبی کوریا کے حالیہ دورے میں کہتے ائے تھے مگر یہاں بات مختلف اس لیے ہوگئی کہ چینی مہمانوں کو مدعو کر کے انہیں میڈیا کے سامنے لتاڑا گیا۔
امریکی وزیرخارجہ نے تو تمام باتیں پہلےسے لکھی تحریر سے ہی پڑھیں مگر چینی وفد نے اس قدر لمبا لیکچر جھاڑا کہ پرانا حساب کتاب بھی چکتا کر دیا۔
چین کے امور خارجہ کمیشن کے ڈائریکٹر ینگ نے جو الفاظ استعمال کیے، وہ امریکی حکام کو اپنے مہمان وفد سے شاید ہی میڈیا کے سامنے کبھی سننا پڑے ہوں۔ رہی سہی کسر چینی وزیر خارجہ وانگ نے پوری کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صدر بائیڈن اور چینی صدر شی کی ٹیلیفونک بات چیت کے نتیجے میں ہونے والے الاسکا اسٹریٹجک مذاکرات لفظوں کی گولہ باری میں بدل گئے۔
چینی وفد نے یہ تک کہہ دیا کہ امریکا بھول جائے کہ وہ چین کا گلا گھونٹ سکتا ہے اور یہ بھی کہ امریکا اب دنیا کا ٹھیکیدار بننے کی کوشش چھوڑ دے۔
آگ اس لیے بھی بھڑکی کیونکہ واشنگٹن کا خیال ہے کہ جب امریکا افغانستان، عراق، شام اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں شامل رہا تو چین نے رفتہ رفتہ خود کو نہ صرف فوجی سطح پر بہت زیادہ مستحکم کر لیا بلکہ اقتصادی طور پر ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے ایک ایسا معاشی نیٹ ورک پھیلا لیا جو امریکا کے اتحادیوں کو اس سے دور کر رہا ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ امریکا کی روس اور چین سے اس کشیدگی کے پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے؟ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کشیدگی فی الحال ختم ہونے کے آثار نہیں۔
امریکا کے وزیر دفاع کا دورہ بھارت بھی چین ہی کے خلاف بھارت کو مضبوط کرنے کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ حال ہی میں کواڈ سربراہ بات چیت بھی ہوئی ہے۔ کواڈ میں امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت شامل ہیں، اسے بھی چین ہی کے خلاف نیٹو طرز کا اتحاد سمجھا جاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو پاکستان کی اہمیت ایک طرف امریکا بلکہ دوسری طرف روس اور چین کے لیے بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ اسلام آباد کو دیکھنا ہو گا کہ کس پلڑے میں کتنا وزن ڈالنا قومی مفاد میں ہوگا۔