بلاگ
Time 18 مارچ ، 2021

ماسکو فارمیٹ:کیا یہ افغان مسئلہ کا حل ہے؟

ماسکو فارمیٹ کے تحت افغانستان کے معاملے پر بات چیت کا سلسلہ پھر شروع ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی پھر سے ابھرا ہے کہ افغانستان کے امور میں روس کا کردارکس قدر اہمیت کا حامل ہے۔

روس کی میزبانی میں منعقد ماسکو فارمیٹ کو ایکسپینڈڈ تھری کا نام بھی دیا جاتا ہےکیونکہ اس میں امریکا، چین اور پاکستان مرکزی اہمیت کے حامل ہیں جب کہ افغان حکومت اور طالبان کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔

ماسکو فارمیٹ کا ایجنڈہ معنی خیز ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد افغانستان میں امن اور ایسے ماحول کا قیام ہے جس سے قومی سطح پر مفاہمت قائم کی جاسکے۔ لیکن خانہ جنگی کا شکار افغانستان میں مختلف گروہوں کے لیے امن کے معنی مختلف ہیں۔ ان کے لیے قومی مفاہمت کی شرائط بھی مختلف نوعیت کی ہیں۔ کچھ گروہ ایسے ہیں جو موجودہ نظام کا تسلسل چاہتے ہیں جب کہ دیگر نئے آئین کے تحت نئے طرز حکومت کے خواہاں ہیں۔

 اس فارمیٹ میں بھارت کی حیثیت محض ایک ایسے تماشائی کی سی ہے جو دوسروں کو مرکزی کردار نبھاتا دیکھ کر جلتے ہیں۔ 

مختلف سوچ کے حامل ان گروہوں کو ایک میز پر جمع کرنا اہمیت کا حامل ہے۔ اس اقدام سے روس ممکنہ طورپر یہ پیغام بھی دینا چاہتا ہے کہ وہ عشروں پہلے افغانستان سے لاکھ نکل چکا ہو مگر اس کی جڑیں آج بھی اس معاشرے میں موجود ہیں۔

خاصا اہم یہ بھی ہےکہ روس نے ماسکو فارمیٹ میں کن ممالک کو نمائندگی دی ہے۔ ماسکو اور بیجنگ کےدرمیان بعض امور پر لاکھ اختلافات سہی مگر کم سے کم افغانستان کے معاملے پر دونوں ممالک کو ایک جیسے تحفظات ہیں۔ دونوں ہی داعش کے بڑھتے اثرات سے نمٹنا چاہتے ہیں اور ایک ایسے ملک میں جس کے معدنی وسائل تین کھرب ڈالر سے زیادہ ہوں، اپنے معاشی مفادات کا بھی تحفظ چاہتے ہیں۔

پاکستان کا کردار تمام ہی کلیدی پلئیرز کے نزدیک اہم ہے۔ ماسکو فارمیٹ میں اسلام آباد کی شمولیت نہ صرف اس کردار کو باضابطہ تسلیم کیا جانا ہے بلکہ یہ روس سے بڑھتے تعلقات کی بھی عکاس ہے۔ پاکستان کے لیے یہ بات مزید تقویت کا سبب ہے کہ اس فارمیٹ میں بھارت کی حیثیت محض ایک ایسے تماشائی کی سی ہے جو دوسروں کو مرکزی کردار نبھاتا دیکھ کر جلتے ہیں۔ یہ صورت اس وقت دیکھنے میں بھی آئی جب پچھلی بار ایسی ہی کانفرنس میں بھارت کے دو سابق سفارتکاروں نے غیرسرکاری سطح پرشرکت کی تھی۔

امریکا کو بظاہر افغان پالیسی بدلنے کی ضرورت اس لیے بھی نہیں کیونکہ اب تک یہ پالیسی اس کے مفاد میں رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ماسکو فارمیٹ پاکستان کے لیے ایک ایسا کھلا موقع ہے کہ وہ امریکا، روس اور چین کے سامنے بھارت کا افغانستان میں گھناؤنا کردار کھل کر پیش کرسکے۔

جہاں تک امریکا کا تعلق ہے تو اس بار وہ کہیں زیادہ فعال ہے۔ پچھلی بار ماسکو سفارت خانے میں تعینات چیف پولیٹیکل افسر نے بطور مبصر شرکت کی تھی تاہم اس بار محکمہ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد ماسکو فارمیٹ میں شرکت کریں گے۔

امریکا کے نزدیک یہ میٹنگ افغانستان میں تمام دیگر بین الاقوامی امن کوششوں کو تقویت دے گی اور ساتھ ہی اب تک ہوئی پیشرفت پر عالمی برادری کی تشویش کی بھی عکاس بنے گی۔

ماسکو فارمیٹ کے انعقاد کا وقت بھی خاص ہے۔ یہ میٹنگ ایسے وقت منعقد کی جارہی ہے جب امریکی حکومت ٹرمپ دور میں بنائی گئی افغان حکمت عملی پر نظرثانی کررہی ہے۔ اگرچہ ایسی علامات تو نہیں کہ صدر جو بائیڈن اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کو یکسر بدل دیں گے تاہم اتنا امکان ضرور ہے کہ کچھ نئے عناصر اب سامنے لائے جائیں گے جنہیں سابقہ پالیسی ہی کا نیا فیز کہا جاسکتا ہے۔

امریکا کو بظاہر افغان پالیسی بدلنے کی ضرورت اس لیے بھی نہیں کیونکہ اب تک یہ پالیسی اس کے مفاد میں رہی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ 29 فروری 2020 کو جب سے امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ امن معاہدہ ہوا ہے، کوئی ایک بھی امریکی فوجی افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں ہلاک نہیں ہوا۔ تاخیر ہی سے سہی بین الافغان امن مذاکرات کی جانب سفر کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔

امریکا نے افغان حکومت اور طالبان دونوں ہی کو ابھی اس بارے میں مکمل طورپر اعتماد میں بھی نہیں لیا کہ آیا یکم مئی سے پہلے تمام امریکی فوجیوں کے انخلا کا وعدہ پورا کیا جائے گا یا نہیں۔ تاہم خطے میں کوئی بھی ملک بشمول روس کے، اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ امریکا کی پوری فوج یکم مئی کو اپنا بوریا بستراٹھا کرافغانستان خالی کردے گی۔ ماسکو کے نزدیک امریکا نہ صرف یہاں موجود رہے گا بلکہ اپنے فوجی اڈے بھی قائم رکھنا چاہتا ہے۔

یہ بھی واضح ہے کہ ماسکو پورے افغانستان پر طالبان کے اقتدار کا حامی نہیں۔ اس کی دلیل یوں بھی دی جاسکتی ہے کہ روس نے افغانستان میں کئی دیگر سیاستدانوں سے بھی قریبی روابط برقرار رکھے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ روس نے افغان معاشرے میں اپنی جڑوں کو پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ ماسکو فارمیٹ اسی کاعکاس ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال بھی ذہنوں میں جنم لیتا ہے کہ آخر افغانستان میں روس کا بنیادی ساتھی ہے کون اور کیوں؟

اس میں دو رائے نہیں کہ روس کی نظر میں صدر اشرف غنی کی زیادہ اہمیت نہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ امریکا کی آشیرباد کے بغیر حکومت کرہی نہیں سکتے۔ دوسرے یہ بھی کہ خود صدرغنی نے یہ کہہ کر کہ وہ الیکشن کے لیے تیار ہیں، ایک لحاظ سے مان لیا ہے کہ ستمبر 2019 میں ہوئے صدارتی انتخابات محض ڈھونگ تھے ۔

اس میں بھی شک نہیں کہ روس کسی نہ کسی حدتک طالبان کی طرفداری کررہا ہے۔ 20برس کی جنگ کے باوجود طالبان اس وقت افغانستان کے 60 فیصد سے زائد حصے پر قابض ہیں اور خود امریکا نے بھی تسلیم کیا ہےکہ وہ بہت تیزی سے دیگر علاقوں کی جانب بڑھنے کی پوزیشن میں ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ روس وہ پہلا ملک تھا جس نے طالبان کو عالمی سطح کے پلیٹ فارم پر جگہ دی۔

لیکن یہ بھی واضح ہے کہ ماسکو پورے افغانستان پر طالبان کے اقتدار کا حامی نہیں۔ اس کی دلیل یوں بھی دی جاسکتی ہے کہ روس نے افغانستان میں کئی دیگر سیاستدانوں سے بھی قریبی روابط برقرار رکھے ہیں۔ ان میں سے بعض اہم عہدوں پر فائض ہیں جب کہ دیگر مختلف سیاسی جماعتوں کے قائد ہیں۔ ان میں سے بعض کو ماسکو فارمیٹ میں مدعو بھی کیا گیا ہے۔

اپریل 2007 سے اب تک ماسکو فارمیٹ افغانستان میں قیام امن کے لیے ایک نیم متوازی کوشش کے طورپر ابھرا ہے۔ کئی دیگر ممالک نے بھی افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنے فارمولے پیش کیے ہیں مگر کسی کا بھی سود مند نتیجہ تاحال نہیں نکل سکا۔

ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ افغانستان میں امن نہ ہونے کی آخر وجہ ہے کیا؟ شاید بنیادی وجہ یہ ہےکہ ہراہم پلئیر کے نزدیک افغانستان میں امن کے معنی مختلف ہیں اور جب تک ان ممالک کےدرمیان، چند ہی نکات پر سہی ، اتفاق رائے نہیں ہوتا، افغانستان میں امن کاقیام محض خواب ہی رہےگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔