11 جون ، 2021
اپوزیشن کے شور شرابے اور احتجاج میں مالی سال 22-2021 کا وفاقی بجٹ پیش کردیا گیا۔
وزیرخزانہ شوکت ترین نے 8 ہزار 487 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کیا۔ اگلے مالی سال کیلئے معاشی ترقی کا ہدف 4.8 فیصد رکھا گیا ہے، وفاقی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد ایڈہاک اضافہ، پنشن میں 10 فیصد اضافہ اور کم سے کم تنخواہ 20 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہے۔
وفاقی بجٹ میں کووڈ ایمرجنسی ریلیف فنڈ کیلئے 100ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ مقامی حکومتوں کے انتخابات اور نئی مردم شماری کیلئے پانچ پانچ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز (پی آئی اے)کیلئے 20 ارب اور اسٹیل ملز کے لیے 16ارب روپے امداد کی تجویز رکھی گئی ہے۔
اینٹی ریپ فنڈ کیلئے 10 کروڑ روپے، ہائر ایجوکیشن کمیشن کیلئے 66 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان بھی موجود تھے۔ وفاقی وزیر کی بجٹ تقریر شروع ہوتے ہی اپوزیشن ارکان نے اسمبلی میں شور شرابا شروع کیا تاہم وزیر خزانہ بجٹ پیش کرتے رہے۔
آئندہ مالی سال 22-2021 کے بجٹ میں دفاعی امور اور خدمات کے بجٹ میں بھی اضافہ کردیا گیا۔
آئندہ مالی سال 22-2021 کے بجٹ کی دستاویز کے مطابق دفاعی امور اور خدمات کیلئے 1373.275 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
گزشتہ مالی سال 21-2020 کے بجٹ میں دفاع کا نظرثانی شدہ میزانیہ 1299.188 ارب روپے رکھا گیا تھا اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دفاع کیلئے 74.087 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق دفاعی انتظامیہ کیلئے 3.275 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ دفاعی خدمات کیلئے 1370 ارب روپے رکھے گئے ہیں جس میں سے ملازمین کے اخراجات کیلئے 481.592 ارب روپے، عملی اخراجات کیلئے 327.136 ارب روپے، مادی اثاثہ جات کیلئے 391.499 ارب روپے اور تعمیرات عامہ کیلئے 169.773 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
وفاقی حکومت نے مالی سال 22-2021 کے بجٹ میں تعلیمی امور اور خدمات کیلئے 91.97 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
بجٹ دستاویز کے مطابق پرائمری اور پرائمری تعلیم سے قبل امور وخدمات کیلئے 3.021 ارب روپے، ثانوی تعلیمی امور وخدمات 7.632 ارب روپے، اعلیٰ تعلیمی امور و خدمات کیلئے 78.195 ارب روپے، تعلیم کیلئے اعانتی خدمات کیلئے 31 کروڑ 70 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ انتظامیہ کیلئے 1.9 ارب روپے اور تعلیمی امور و خدمات جن کی کہیں اور صراحت نہیں، کیلئے 89 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
وفاقی حکومت نے مالی سال 22-2021 کے بجٹ میں امورِ صحت اور خدمات کیلئے 28.352 ارب روپے کی رقم رکھی ہے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق طبی مصنوعات، سازو سامان اور آلات کیلئے 3 کروڑ روپے سے زائد، ہاسپٹل سروسز کیلئے 23.982 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ خدمات صحت عامہ کیلئے 84 کروڑ سے زائد جبکہ ہیلتھ ایڈمنسٹریشن کیلئے 3.4 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
دستاویز کے مطابق مالی سال 22-2021 میں کورونا سے متعلقہ اخراجات کیلئے 100 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
مالی سال 22-2021 کے بجٹ میں معاشرتی تحفظ کیلئے 255 ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے جس میں سے سماجی تحفظ پر 252.46 ارب روپے لگائے جائیں گے۔
بجٹ دستاویز میں سماجی تحفظ پر رقم کے حوالے سے مزید کوئی تفصیل نہیں دی گئی ہے۔
آئندہ مالی سال کے وفاقی خالص محاصل کا ہدف 4497 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اگلے مالی سال کیلئے ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں انکم ٹیکس کی مد میں 2182 ارب روپے وصول کیے جانے کا تخمینہ ہے جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 139 ارب 28 کروڑ روپے زیادہ ہے۔
بجٹ دستاویز کے مطابق کیپٹیل ویلیو ٹیکس میں کمی کی گئی ہے جوگذشتہ سال دو ارب 72کروڑ روپے تھا۔ اگلے سال یہ صرف چھپن کروڑ روپے ہو گا۔
کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 145 ارب کے اضافے سے 785 ارب کی وصولیاں ہوں گی، سیلز ٹیکس کی مد میں 587 ارب اضافے سے 2506 ارب روپے حاصل کیے جانےکا ہدف ہے۔
تھری اور فور جی پر ٹیکس سے 18 ارب روپے اضافے سے 45 ارب 40 کروڑ روپے کی ٹیکس وصولی ہوگی۔
صوبوں سے سود کی مد میں 35 ارب اور حکومتی اداروں سے سود کی مد میں 90 ارب کی وصولیاں متوقع ہیں۔ اسٹیٹ بینک کا منافع 650 ارب روپے متوقع ہے۔
اگلے مالی سال کی بجٹ دستاویزات کے مطابق قابل تقسیم ٹیکس محصولات سے وفاق کو 3 ہزار 310 ارب روپے حاصل ہوں گے۔
قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے تحت پنجاب کو ایک ہزار 691 ارب روپے، سندھ کو 848 ارب روپے، خیبر پختونخوا کو 559 ارب روپے اور بلوچستان کو 313 ارب روپے ملیں گے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے پاکستان میں تیار 850 سی سی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم کرکے 12.5 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ 850 سی سی تک کی امپورٹڈ گاڑیوں پر کسٹم اور ریگولیٹری ڈیوٹی پر چھوٹ دینے اور ودہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں کہا کہ مقامی طور پر تیار کردہ چھوٹی گاڑیوں کو ویلیو ایڈڈ ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے چھوٹ دی جارہی ہے، الیکٹرک گاڑیوں کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کرنے اور ایک سال تک کسٹم ڈیوٹی کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پہلے سے بننے والی گاڑیوں اور نئے ماڈل بنانے والوں کو ایڈوانس کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مقامی طور پر تیار ہیوی موٹرسائیکل، ٹرک اور ٹریکٹر کی مخصوص اقسام پر ٹیکسز میں کمی کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔
وفاقی حکومت کے آئندہ مالی سال 22-2021 کے بجٹ میں تین منٹ سے لمبی موبائل فون کالز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے بتایا کہ تین منٹ سے لمبی موبائل فون کالز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ ڈیٹا کے استعمال اور ایس ایم ایس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نافذ کی جائے گی۔
وزیرخزانہ کا کہنا تھاکہ موبائل فونز پر موجودہ ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح ساڑھے 12 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کیا جائے گا۔
وفاقی بجٹ میں اِن تجاویز کے بعد موبائل فون سستے اور فون کالز مہنگی ہوجائیں گی۔
وفاقی وزیرخزانہ کا کہنا تھاکہ حکومت نے ای کامرس کو سیلز ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔
بجٹ میں آئی ٹی زون کیلئے پلانٹ، مشینری ، سازو سامان اور خام مال پر ٹیکس چھوٹ کی تجویز دی گئی ہے ۔
شوکت ترین نے کہا کہ موبائل سروسز پر ودہولڈنگ ٹیکس 8 فیصد تک بتدریج کم کیا جائے گا۔
بجٹ میں زرعی شعبے کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پھلوں کے رس پر عائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
زرعی اجناس کے گوداموں کو ٹیکس چھوٹ دینے کی تجویز ہے، ٹڈی دل اور فوڈ سیکیورٹی پروجیکٹ کے لیے ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
چاول، گندم، کپاس، گنے اور دالوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے 2 ارب روپے ، زیتون کی کاشت بڑھانے کے لیے ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
8 ہزار 487 ارب روپے کے بجٹ میں 964 ارب روپے ترقیاتی منصوبوں اور خالص قرض دہی کیلئےمختص کیے گئے ہیں۔
وفاقی بجٹ میں کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے لیے 739 ارب روپے مختص کیے گئے ہيں۔
وفاقی حکومت 98 ارب روپے دے گی جبکہ سرکاری و نجی شعبے کے اشتراک سے 509 ارب شامل ہوں گے۔
اس کے ساتھ سندھ کے 14 سے زائد اضلاع کی ترقی کےلیے 444 ارب روپے سے 107 منصوبے مکمل ہوں گے۔
بجٹ تقریر میں شوکت ترین نے کہا کہ سکھر حیدرآباد موٹر وے اور سیالکوٹ کھاریاں موٹر وے پر کام شروع کردیا گیا ہے، مین لائن (ایم ایل) ون منصوبے کا آغاز جولائی میں ہوگا، ریلوے کا مین لائن ون منصوبہ 9 ارب 30 کروڑ ڈالرز کی لاگت سے مکمل ہوگا۔
بجٹ میں زرعی شعبے کیلئے 12 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ کم آمدنی والوں کیلئے گھروں کی تعمیرپر 3 لاکھ روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔
وفاقی بجٹ میں امپورٹڈ کتابیں اور رسالے ، زرعی آلات ، آئی ٹی کی مشینری ، پھلوں کا رس سستے ہوجائیں گے، تین منٹ سے لمبی موبائل فون کال اور انٹرنیٹ ڈیٹا مہنگا ہوجائے گا۔
ٹیلی مواصلات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح 17 فیصد سے کم کرکے 16 فیصد کرنے کی تجویز ہے، بینکنگ ٹرانزیکشن، پاکستان اسٹاک ایکسچینج اور ائیر ٹریول سروسز پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کے ذریعے بین الاقوامی ٹرانزیکشنز پر بھی ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کیا جارہا ہے۔
آئندہ مالی سال پیٹرولیم مصنوعات پر لگائی جانے والی پیٹرولیم لیوی کی مد میں حاصل کی جانے والی رقم میں ساڑھے 35فیصد اضافہ کر دیا گیا۔
آئندہ مالی سال مختلف پیٹرولیم مصنوعات، پیٹرول، ڈیزل، مٹی کے تیل، ہائی اوکٹیں اور لائٹ ڈیزل پر لیوی کے نفاذ سے حاصل ہونے والی رقم کی مد میں 610 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
بجٹ دستاویزکے مطابق پیٹرولیم لیوی کی مد میں مختص کی جانے رقم رواں مالی سال کے ہدف سے 160ارب روپے زیادہ ہے اور رواں مالی سال پیٹرولیم لیوی کی مد میں وفاقی حکومت نے 450 روپےوصول کرنے کا ہدف مقررکررکھاہے۔
آئندہ مالی سال ایل پی جی پر پیٹرولیم لیوی کی مد میں بھی 2ارب 8کروڑ روپے کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے اورلیوی کی وصولی کاہدف 5ارب 51کروڑ روپے سے بڑھاکر 7ارب 60کروڑ روپے کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں پاور سیکٹر ، پیٹرولیم ،پاسکو ، یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن، نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی اور کھاد سمیت مختلف شعبوں کے لیے سبسڈی کی مد میں 682 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
آئندہ مالی سال کے لیے مختص سبسڈی رواں مالی سال کے مقابلے میں 226 فیصد زیادہ ہے تاہم میٹرو بس سروس پر دی جانے والی سبسڈی آدھی کر دی گئی ہے۔
پاور سیکٹر کی سبسڈی میں 457فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جو 139ارب روپے 50کروڑ روپے سے بڑھا کر 596 ارب روپے کی گئی ہے۔
بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو دی جانے والی سبسڈی 129ارب روپے سے بڑھا کر 245ارب روپے کر دی گئی ہے، کے الیکٹرک کے لیے سبسڈی ساڑھے 10 ارب روپے سے بڑھا کر 85ارب روپے کر د ی گئی ہے ۔
گردشی قرض کنٹرول میں رکھنے کے لیے بجٹ میں آئی پی پیز اور پاور ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کیلئے 266ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
پیٹرولیم سیکٹر کی سبسڈی 10ارب روپے سے بڑھا کر 20ارب روپے کی گئی ہے۔ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے لیے سبسڈی 3ارب سے بڑھا کر 6ارب کر دی گئی ہے۔ میٹرو بس سروس کی سبسڈی 2ارب سے کم کر کے ایک ارب روپے کر دی گئی ہے۔
کھاد سیکٹر کے لیے 6 ارب روپے، نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کیلئے 30ارب رو پے اور نیا پاکستان قرضوں کے لیے مارک اپ پر 3ارب روپے کی سبسڈی رکھی گئی ہے۔