16 جون ، 2021
کراچی کی قیمتی زمینوں کے معاملات محکمہ جاتی قواعد کے تحت نہیں بلکہ ایک ’خاص‘ سسٹم کے تحت چلائے جارہے ہیں۔
جیو نیوز کو تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ یہ سسٹم بڑے منظم انداز میں زمینوں کی الاٹمنٹ، ٹرانسفر، زمینوں کے ٹائٹل میں ردو بدل اور دیگر امور چلارہا رہا ہے۔ اس کا مرکز محکمہ بورڈ آف ریونیو کا شعبہ لینڈ یوٹیلائزیشن ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ پچھلے 13 برسوں سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت کوئی متعلقہ وزیر ایسا نہیں جسے لینڈ یوٹیلائزیشن کا شعبہ دیا گیا ہو، سونے کی یہ چڑیا غیر متعلقہ افراد کے قبضے میں ہے۔
اس سسٹم کا آغاز 2008 میں ہوا ۔ پہلے اسے ایک طاقتور ترین وزیر نے چلایا پھر 2010 میں اویس مظفر ٹپی سامنے آئے مگر یہاں دولت کی ریل پیل اتنی ہے کہ اسے سنبھالنے والا اکثر خود ڈگمگا جاتا ہے یوں اویس مظفر ٹپی بھی سائڈ لائن ہوئے اور 2014 میں اس کی باگ ڈور منظور کاکا نے سنبھال لی۔
منظور کاکا کے بعد اس سسٹم کو سنبھالا کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک اوسط درجے کے بلڈر یونس میمن عرف یونس سیٹھ نے، یہ وہ حقیقت ہے جسے جانتے سب ہیں مگر مانتا کوئی نہیں۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ اس سسٹم نے زمینوں کا نظام اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے، یہ سسٹم پہلے محکمہ ریونیو اور لینڈ یوٹیلائزیشن تک محدود تھا لیکن اب اس نے کے ایم سی، کے ڈی اے اور ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی پر بھی پنجے گاڑ دیے ہیں۔
سسٹم سے جڑے افراد کراچی کے تین اضلاع میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہیں، یہی نہیں ایک درجن سے زائد اسسٹنٹ کمشنرز، مختیار کار، تپہ دار اور سب رجسٹرار بھی اس کا حصہ ہیں۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اب زمینوں سے متعلق کاموں کے عوض ماہانہ اربوں روپے کا لین دین یہی سسٹم کرتا ہے اور وزیر اعلیٰ سندھ سمیت کوئی متعلقہ وزیر اس کے آڑے نہیں آتا۔