27 جولائی ، 2017
اس وقت وفاقی حکومت مشکل میں ہے،اہم ادارے مصروف جب کہ عوام اور میڈیا پاناما کیس پر متوجہ ہیں ۔ اپوزیشن رہنماؤں کا ماننا ہے کہ سندھ میں ارباب اقتدار آئندہ انتخابات میں ہرصورت کامیابی کے لئے تیزی سے اختیارات پر قبضے اور سرکاری خزانے کو مال غنیمت بنا کرلوٹنے میں مصروف ہیں۔
ایسے میں اٹھارویں ترمیم کی زبردست حامی اور بانی پیپلزپارٹی اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے آئینی فارمولے کی بھی نفی کرتی نظر آتی ہے۔ اپوزیشن ارکان کو لگتا ہے کہ سندھ میں کرپشن کے راستے میں ہررکاوٹ کو دور کرنے کا عمل جاری ہے۔
اہم اداروں پرمکمل سیاسی کنٹرول اور مداخلت کی کوششیں، سیاسی مداخلت کے ساتھ ہرطرح کی رکاوٹیں دور کرنے کے اقدامات اورقانون سازی سے لے کر اختیارات کی بہ یک جنبش قلم منتقلی کے حکم نامے جاری کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
قانون سازی آئینی طور پر اسمبلی کا آئینی اختیار ہے،
وزیراعلیٰ سندھ
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا مؤقف ہے کہ قانون سازی آئینی طور پر اسمبلی کاآئینی اختیار ہے،اٹھارویں ترمیم نے صوبوں کو کئی معاملات میں بااختیار کیا ہے۔
سندھ اسمبلی کے نو منتخب ممبر سعید غنی اپنی جماعت پیپلز پارٹی کو عوامی جماعت کہتے ہیں ہے او ر ان کا ماننا ہے کہ اس کے عوامی مفادات کے لئے کام آئین اور قانون کے دائرے میں ہیں، مخالفین صرف مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
سندھ اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں نصرت سحر عباسی،نند کمار، خرم شیر زمان، فیصل سبزواری، سید سردار احمد ، سورٹھ تھیبوسمیت کئی اپوزیشن رہنماؤں نے کھل کر نیب قانون کے خاتمے کی مخالفت کی۔
نیب سندھ کے خاتمے کا قانون وفاق سے ٹکراؤ اور بدنیتی پر مبنی ہے۔
— اپوزیشن رہنماؤں کامؤقف
اپوزیشن رہنما کہتے ہیں کہ یہ قانون وفاق سے ٹکراؤ اور بدنیتی پر مبنی ہے ۔صوبائی حکومت یہ نیت صاف طور پر نظر آرہی ہے کہ کرپشن کے بعد احتساب کرنابھی کرپشن کرنے والوں کے ہاتھ میں ہوگا کیونکہ ماضی میں اس عملی مظاہرہ اس وقت نظر آیا جب سپریم کورٹ کے حکم پر 53 ارب روپے کی زمینوں کے گھپلے میں ملوث افسر شاذر شمعون کو بورڈ آف ریونیو سے تو ہٹایا گیا تو انہیں صوبائی حکومت نے چیرمین اینٹی کرپشن تعینات کردیا۔
اسی طرح سینئرپولیس افسر جو اب ایڈیشنل آئی جی تعینات ہیں ان پر بھی کرپشن کے الزامات لگے اور بعد میں انہیں بھی چیرمین اینٹی کرپشن تعینات کردیا گیا ۔ اب اس بات کی بازگزشت ہے کہ احتساب کمیشن سندھ کے چیرمین کی اہلیت پربھی سمجھوتہ کیا جائے گا۔
محکمہ بلدیات کے کئی شعبوں کو صوبائی اختیار میں لینے کے بعد آئی جی سندھ کے اختیارات غیرمعمولی حد تک محدود کرنےکے بعد اب وزیراعلیٰ سندھ کے اختیارات بھی محدود کیے جانے لگے ۔وزیراعلیٰ سندھ بظاہر بے بس اورپارٹی قیادت کو انکار کی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ سب ان ہی کی منظوری سے ہی کیا جارہا ہے۔
بلدیاتی اداروں کے کئی اختیارات اور مالی وسائل پر ضلعی اور صوبائی حکومت کے درمیان تنازعات ہیں۔منتخب بلدیاتی حکومتوں کو اختیارات اور مالی وسائل کی عدم فراہمی کی شکایات ہیں۔ صفائی ، پانی اور صحت عامہ سے متعلق معاملات پر سیاسی تصادم کی صورت حال نے عوام کو براہ راست متاثر کیا ہے۔
سندھ کی سیاست کے ایک اور اہم کردار وزیرداخلہ سہیل انورسیال صوبے میں اہم اور طاقتور ترین وزیرکی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔
صوبے میں باقی شہروں کے ترقیاتی کاموں کی صورت حال ابتر ہے لیکن موجودہ قیادت کراچی میں کم ازکم سڑکوں کی تعمیر و مرمت، صفائی، پانی کے منصوبوں سے متعلق ٹھیکوں کی الاٹمنٹ کے بعد کام میں کہیں کہیں سنجیدہ نظر آتی ہے ۔ ایسے میں اگر بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز اور وسائل فراہم کئے جارہے ہیں تو ان کی بھی مانیٹرنگ اور احتساب بھی ضروری ہے۔
سندھ کی سیاست کے ایک اور اہم کردار وزیرداخلہ سہیل انورسیال صوبے میں اہم اور طاقتور ترین وزیرکی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ گریڈ 18 اور 19 کے سینئر پولیس افسران کے تبادلوں اور تقرری کے اختیارات وزیراعلیٰ سندھ سے لے کر وزیرداخلہ کو دیے دئیے گئے ہیں۔
صوبے میں پولیس افسران بے اختیار نظرآتے ہیں اور ا یک ایس ایچ او تک کی تعیناتی بھی وزیرداخلہ کی کی منظوری سےمشروط ہوگئی ہے ۔سیاسی مخالفین الزام عائد کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر پیپلزپارٹی کی بااثر خاتون رہ نما براہ راست حکومتی معاملات چلارہی ہیں۔
مخالفین الزام عائد کرتے ہیں کہ عدالت کے بعد اب یہ بات عوام کی زبان پر ہے کہ سندھ میں اداروں کو کمزور سے کمزور تر کرنے کے لئے سیاسی مداخلت عروج پر ہے۔محکمہ پولیس میں ایک مرتبہ پھر ماضی میں کرپشن اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہونے والے افسران کی تعیناتی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
پولیس آپریشنل فورس سے تجربہ کار اورپروفیشنل پولیس افسران کو عہدوں سے ہٹاکرناتجربہ کار اور سیاسی پشت پناہی کے حامل افسران کو تعینات کیا جارہاہے۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ ہاتھ اٹھاچکے، وزیراعلیٰ سندھ ، چیف سیکریٹری اور اسٹبلشمنٹ ڈویژن کو کئی خطوط لکھ کر سیاسی مداخلت اور اپنی بے بسی کا اظہار بھی کرچکے۔
دوسری جانب سے پولیس فورس کا تیزی سے گرتا مورال جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کو حوصلہ دیتا نظر آرہا ہے۔ نیب قوانین کے خاتمے سے متعلق قانون سازی کے بل کو سندھ کی اپوزیشن جماعتوں نے کرپشن کو سہارا دینے کے لئے قانون سازی قرار دیا ہے جب کہ گورنر سندھ بھی اس بل کو مسترد کر چکے ہیں۔
نیب قوانین کے خاتمے سے متعلق قانون سازی کے بل کو سندھ کی اپوزیشن جماعتوں نے کرپشن کو سہارا دینے کے لئے قانون سازی قرار دیا ہے
سپریم کورٹ آف پاکستان سرکاری زمینوں کی بندربانٹ، قبضوں اور اختیارات سے تجاوز کرنے سے متعلق کئی مقدمات میں اپنا فیصلہ دے چکی ہے اور پابندیاں بھی عائد کرچکی ہے لیکن قانون سازی کا اختیار استعمال کرکے ان فیصلوں کو کسی نہ کسی طرح پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
این آر او کے تحت بڑی تعداد میں سیاستدان مستفید ہوئے جس میں یقیناً بڑی تعداد میں انتقامی نوعیت کے کیسز بھی تھے لیکن یہ ایک بری صورت حال ہوگی اگر کرپشن کے الزامات میں نیب اور اینٹی کرپشن میں نامزد افسران و ملازمین کو بھی سیاسی رہنماؤں کی طرح تحفظ فراہم کیا جانے لگے۔ اور ساتھ انہیں احتساب کرنے والے اداروں میں اہم عہدوں پر تعینات کیا جائے۔
سیاسی تجزیہ کار اور ان معاملات پر گہری نظر رکھنے والے صحافی کہتے ہیں کہ عام انتخابات سے قبل پولیس، بورڈ آف ریونیو، ضلعی انتظامیہ ، محکمہ تعلیم ، آبپاشی، ایکسائز، خوراک ، زراعت سمیت دیگر اہم اداروں میں منظور نظر افسران و ملازمین کو تعینات کرکے انتخابی عمل میں سرکاری مشینری کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنا پرانے سیاسی حربوں میں شامل ہے۔
دوسری جانب بجٹ میں اعلان کردہ ہزاروں نئی ملازمتوں سے بھرپور استفادہ کرکے انتخابی دنگل میں اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتاہے ۔ پولیس میں21 ہزار اسامیاں پُر ہوجانے پر گزشتہ دو سال سے پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی سخت تشویش میں مبتلا تھے کیونکہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اس میں بڑی رکاوٹ بنے رہے۔
موجودہ دور حکومت کے آخری سال میں نئی بھرتیوں، اربوں روپے کے ترقیاتی ٹھیکوں، تبادلے اور تقرریوں کے مفادات، بورڈ آف ریونیو،آبپاشی، زراعت ، خوراک، ورکس اینڈ سروسز، ایکسائز، اور بلدیات سمیت دیگر اداروں سے مفادات سمیٹنےمیں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔
اپوزیشن رہنما کہتے ہیں اسی مقصد کے لئے احتساب قوانین اور اداروں کو کنٹرول میں لانے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں ساتھ ہی کرپٹ افسران کی صفوں کو مضبوط کرکے نظام کو مزید کھوکھلا بنانے کا عملی کام انتہائی مہارت اور کامیابی سے جاری ہے۔
دوسری جانب صوبے میں حکمران جماعت اور حکومتی وزراء کا مؤقف ہے کہ نیب خاتمے کا قانون، بلدیاتی اداروں پر صوبائی حکومت کے اختیارات ، سرکاری ملازمین کے تبادلے و تقرری یا مدت تعیناتی سے متعلق قانون سازی سمیت ہر کام آئین اور قانون کے دائرے میں اور عوام کے مفاد میں کیا جارہاہے۔
اگرچہ قانون سازی صوبائی اسمبلی کا اختیار ہے مگر کرپشن کے الزامات میں گھرےافسران کی اہم عہدوں پر تعیناتی ، نیب قوانین کا خاتمہ اور آئی جی سندھ جیسے اہم عہدے کو مفلوج کرنے جیسے اقدامات کو کسی بھی صورت ایک مخلص کوشش اور عوامی مفاد میں نہیں قرار دیا جا سکتا۔
سینئر صحافی طارق معین صدیقی جیو نیوز سے وابستہ ہیں۔ وہ سندھ کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
جیو نیوز کا اس تحریر اور بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔