14 جولائی ، 2021
ایوان بالا (سینیٹ) کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا جس میں اسلام آباد میں جوڑے پر تشدد کی وائرل ویڈیو کا معاملہ بھی زیرغور آیا۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے استفسار کیا کہ کیا ایکشن لیا گیا ہے؟ کیا ویڈیو 5 منٹ سے زیادہ بھی ہے؟ اسے اتنا وائرل ہونے سے روکا کیوں نہیں جاسکا؟
اس پر وفاقی دارالحکومت کی پولیس حکام نے بتایاکہ واقعہ نومبر 2020 کا ہے لیکن جیسے ہی ویڈیو وائرل ہوئی اس کی ایف آئی درج کردی۔
حکام کا کہنا تھاکہ خاتون کو برہنہ کرنے کی سیکشن لگی جس کی سزا موت ہے، متاثرین تک ہم پہنچ گئے ہیں، وہ لو پروفائل رہنا چاہتے ہیں، متاثرین نے بیان دیا کہ ملزمان نے ان سے پیسے لیے۔
پولیس حکام کے مطابق ملزمان نے متاثرین کو بلیک میل کرکے 11 لاکھ روپے لیے، ملزمان متاثرین کو جان سے مارنے کی دھمکی دیتے تھے، متاثرین کو سیکیورٹی دینے سے متعلق بات ہوئی، لیکن متاثرین کسی صورت میں ہائی پروفائل نہیں آنا چاہتے، ہم انہیں زبردستی نہیں لاسکتے، اسے دھیان سے دیکھنا ہوگا۔
حکام نے بتایا کہ ہم نے کہا کہ سادہ لباس بندے سیکیورٹی پر لگادیتے ہیں لیکن متاثرین اس پر بھی تیار نہیں۔
پولیس حکام نے ملزمان کے حوالے سے بریفنگ میں کہا کہ ہماری حراست میں 7 سے 8 افراد ہیں، مرکزی ملزم اور ویڈیو بنانے والے 2 افراد ہماری حراست میں ہیں جبکہ ایک کی گرفتاری کیلئے ہماری ٹیم دوسرے صوبے میں ہے۔
اسلام آباد پولیس نے کمیٹی کو بتایاکہ ابھی تک موبائل فون میں کسی اور متاثرین کی کوئی ویڈیو نہیں ملی، ملزم کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ بہت امیر ہیں، سیاسی طورپربھی رابطے ہیں لیکن ملزم اتنا کوئی بڑا نہیں ہے، اسے اسٹار بننے کا شوق ہے، ملزم کی پہلے بھی ٹک ٹاک ویڈیوز ہیں، ایسا کوئی ویل کنیکٹڈ نہیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ متاثرین کے بیان کے مطابق لڑکا لڑکی کا منگیتر ہے، ہماری تفتیش میں ان کی ایسے منظم سرگرمی نہیں ہے کوئی، ایسا لگ نہیں رہا کہ یہ ویڈیو کوئی منظم طور پر بنائی گئی ہو۔
ڈی آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ اس کیس میں وہ دفعات شامل کی جس کی سزا موت یا عمر قید ہے جبکہ انسداد ریپ قانون کے تحت اسپیشل مشترکہ ٹیم بن چکی ہے اور کیس پر کارروائی ان کیمرا ہی ہوں گی اور کوشش کر رہے ہیں ٹائم پر تحقیقات مکمل کر لیں۔
اجلاس میں ڈی چوک پر ایک شخص کی جانب سے اسلحہ لہرانے کے معاملے پر ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے کہا کہ تفتیش کی جا رہی ہے، ابتدائی تفتیش کے مطابق دماغی طور پر یہ شخص ٹھیک نہیں ہے، میڈیکل بورڈ ڈکلیئر کرے گا کہ وہ دماغی طور پر ٹھیک نہیں۔