Time 10 اگست ، 2021
دنیا

شارجہ نے پاکستانی مسافروں کو بغیر ریپڈ پی سی آر ٹیسٹ سفر کی اجازت دیدی

شارجہ نے پاکستان کی درخواست قبول کرتے ہوئے آر اے ٹی ٹیسٹ کرانے پر رضامندی ظاہرکردی ہے— فوٹو: فائل
 شارجہ نے پاکستان کی درخواست قبول کرتے ہوئے آر اے ٹی ٹیسٹ کرانے پر رضامندی ظاہرکردی ہے— فوٹو: فائل

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی ریاست شارجہ نے پاکستان کی درخواست قبول کرتے ہوئے پاکستانی مسافروں کو سفر کی اجازت دے دی۔

خیال رہےکہ یو اے ای کی 2 ریاستوں شارجہ اور دبئی نےکورونا کی بھارتی قسم ڈیلٹا ویریئنٹ کے باعث پاکستان سمیت جنوبی ایشیا سے آنے والے مسافروں کے لیے' ریپڈ پی سی آر ٹیسٹ' کی شرط لازم قرار دی تھی جس کی سہولت پاکستانی ائیرپورٹس پر ابھی دستیاب نہیں ہے۔

حکومت پاکستان نے دونوں ریاستوں سے ملک میں  ریپڈ پی سی آر ٹیسٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کی تھی اور درخواست کی تھی کہ  پاکستان سے رہائشی ویزوں کے حامل مسافروں کے ریپڈ اینٹی جن ٹیسٹ (آر اے ٹی ٹیسٹ) قبول کیے جائیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ دنوں کراچی ائیرپورٹ پر مسافروں کا ریپڈ پی سی آر ٹیسٹ نہ لیے جانے کے سبب ایمریٹس ائیرلائن 70 پاکستانی مسافروں کو چھوڑ کر دبئی روانہ ہوگئی تھی۔

ذرائع کے مطابق اب شارجہ نے پاکستان کی درخواست قبول کرتے ہوئے آر اے ٹی ٹیسٹ کرانے پر رضامندی ظاہرکردی ہے۔

دبئی ائیرپورٹ حکام کا نیا ہدایت نامہ

دوسری جانب دبئی ائیرپورٹ حکام کی جانب سے بھی پاکستان سے آنے والے مسافروں کے لیے نئی سفری ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔

 ائیرپورٹ حکام کے مطابق دبئی کا رہائشی ویزہ رکھنے والے افراد کو ریاست میں داخلے کے لیے  ویکسینیشن کارڈ کی ضرورت نہیں، مسافر کو  48 گھنٹے پہلے پی سی آر ٹیسٹ اور چار گھنٹے پہلے ریپڈ پی سی آر ٹیسٹ کرانا ہوگا اور مسافروں کا دبئی پہنچنے پر کورونا ٹیسٹ بھی کیا جائےگا۔

پی سی آر  ریپڈ ٹیسٹ اور ریپڈ اینٹی جن ٹیسٹ کیا ہے ؟

خیال رہے کہ دنیا بھر میں کورونا کی تشخیص کے لیے عام طور پر پی سی آر ٹیسٹ کیا جارہا ہے جس کی رپورٹ کم از کم 24 گھنٹوں میں آتی ہے جب کہ پی سی آر  ریپڈ ٹیسٹ اسی کی جدید شکل ہے جس کی رپورٹ 4 گھنٹے میں آجاتی ہے۔

دوسری جانب ریپڈ اینٹی جن ٹیسٹ ( آر اے ٹی ٹیسٹ) ایک طرح کا ہنگامی ٹیسٹ ہے جو کہ عام طور پر ائیرپورٹس پر کیا جارہا ہے، اس میں ایک اسٹرپ استعمال کی جاتی ہے اور اس کا نتیجہ تو فوری مل جاتا ہے تاہم یہ زیادہ قابل اعتبار نہیں اور عموماً کورونا کی علامات والے مریضوں میں اس کے نتائج زیادہ بہتر ہوتے ہیں۔

مزید خبریں :