دنیا
Time 28 اگست ، 2021

طالبان کی مختلف اطراف سے پنجشیر میں پیش قدمی، جنگ کے بادل منڈلانے لگے

وادی میں داخلے کے وقت کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، طالبان کا دعویٰ— فوٹو:فائل
وادی میں داخلے کے وقت کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، طالبان کا دعویٰ— فوٹو:فائل

طالبان نے افغانستان کے صوبے پنجشیر میں مختلف اطراف سے پیش قدمی شروع کردی ہے جس کے بعد وہاں جنگ کے بادل ایک بار پھر منڈلانے لگے۔

رپورٹس کے مطابق طالبان اور وادی پنجشیر کے معززین کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور اب تک کوئی بریک تھرو نہیں ہوا ہے۔

دوسری جانب طالبان نے ایک بار پھر وادی پنجشیر میں پیشقدمی کی ہے اور طالبان جنگجوؤں نے وادی سے متصل پہاڑوں اور چوٹیوں پر مورچے قائم کرلیے ہیں۔

افغان میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ جنگجوؤں کے دستے مختلف سمتوں سے وادی پنجشیر میں داخل ہوگئے ہیں۔

طالبان کے ثقافتی  کمیشن کے رکن امان اللہ کا کہنا تھاکہ وادی میں داخلے کے وقت کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

تاہم وادی پنجشیر کی مزاحمتی فورس کے رکن نے طالبان کے ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔

مزاحمتی فورس کے مذاکراتی وفد کے رکن محمد الماس زاہد نے بتایا کہ پنجشیر میں کوئی لڑائی نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی داخل ہوسکا ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو سنگین نتائج سامنے آئیں گے، اس سے جنگ اور غیرملکی مداخلت کا راستہ کھلے گا۔

خیال رہے کہ طالبان اور مزاحمتی فورس کے درمیان افغان دارالحکومت کابل میں مذاکرات جاری ہیں اور  گزشتہ دنوں فریقین کے درمیان ایک دوسرے پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ طے پایا تھا۔

واضح رہے کہ وادی پنجشیر طالبان کے خلاف مزاحمت کا آخری گڑھ ہے اور اس کے علاوہ وہ تقریباً پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔

پنجشیر میں مزاحمتی فورس کی قیادت سابق جہادی کمانڈر احمد شاہ مسعود کے جواں سال بیٹے احمد مسعود کررہے ہیں جبکہ گزشتہ دنوں احمد مسعود نے اعلان کیا تھاکہ طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے مرنا پسند کروں گا۔

وادی پنجشیر ناقابل تسخیر کیوں؟

افغان صوبہ پنجشیر اب بھی ناقابل تسخیر ہے اور طالبان بھی اب تک وہاں داخل نہیں ہوسکے ہیں۔ پنجشیر اس سے قبل پروان صوبے کا حصہ تھا جسے 2004 میں الگ صوبے کا درجہ دیا گیا۔

پنجشیر صوبے کا دارالحکومت بازارک ہے، یہ سابق جہادی کمانڈر اور سابق وزیر دفاع احمد شاہ مسعود کا آبائی شہر ہے۔ 

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد احمد شاہ مسعود نے  90 کی دہائی میں وادی کا کامیاب دفاع  کیا تھا جبکہ اس سے قبل سابقہ سوویت یونین کی فوج بھی اس وادی میں داخل نہیں ہوسکی تھی اور متعدد حملوں کے باوجود ہر دفعہ یہ وادی ناقابل تسخیر رہی۔

مزید خبریں :