16 اکتوبر ، 2021
افغانستان کے لیے ہندوکش کے پہاڑی سلسلے سے گزرنے والی شاہراہِ سالانگ بہت اہم ہے جس کی تجارتی اہمیت یہ ہے کہ وسط ایشیائی ممالک اور پاکستان کا تجارتی سامان اسی شاہراہ کے ذریعے افغانستان پہنچتا ہے۔
شاہراہ سالانگ کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ سکندراعظم سے لے کر سوویت یونین تک ہر حملہ آور نے یہی راستہ اختیار کیا۔
ہندوکش کے پہاڑی سلسلے سے گزرنے والی شاہراہ سالانگ کی تاریخی اور اسٹریٹجک اہمیت ہے، وسطی ایشیا سے آنے والے حملہ آور ہوں یا تجارتی قافلے، سب اسی شاہراہ سے گزر کر جنوب میں برصغیر تک پہنچے جب کہ 1979میں روسی فوج بھی اسی راستے سے افغانستان میں داخل ہوئی تھی۔
شاہراہ سالانگ کے ساتھ ساتھ دریائے سالانگ بہتا ہے، راستے میں دلفریب مناظر بھی ہیں جنہیں دیکھ کر آنکھیں کھلی کی کھلی اور قدم ساکت ہوجاتے ہیں۔
پہاڑی چشموں کا پانی پائپ لائنوں کے ذریعے لایا جاتا ہے، اس کا پریشر اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ دھار دور تک جاتی ہے، اس یخ بستہ پانی سے مشروبات بھی ٹھنڈے کیے جارہے ہیں،شاہراہ سالانگ کے ساتھ ساتھ انگور ، اخروٹ اور دیگر پھلوں کے باغات بھی ہیں، سڑک کنارے مقامی میوہ جات کا کاروبار بھی ہو رہا ہے۔
شاہراہ سالانگ کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ تاجکستان اور ازبکستان کے علاوہ پاکستانی تجارتی سامان بھی ٹرکوں سے اسی شاہراہ کے ذریعے کابل اور دیگر مقامات تک پہنچتا ہے، شاہراہ کئی مقامات پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس کے باعث ٹریفک کی رفتار بہت سست ہے۔
راستے میں کئی چھوٹی بڑی سرنگیں بھی آتی ہیں جن سے گزر کر سطح سمندر سے ساڑھے 10 ہزار فٹ بلند مرکزی سالان ٹنل میں داخل ہوا جاتا ہے یہ سرنگ 1964 میں روس نے تعمیر کی تھی، شاہرہ سالانگ پر صوبہ پروان اور بغلان سے گزرتے ہوئے کئی مقامات پر جنگ کے آثار بھی نظر آئے۔
کابل سے قندوس کے راستے میں آنے والے مسافروں سے کئی چیک پوسٹوں پر روک کر پوچھ گچھ بھی کی جاتی ہے جس کی وجہ دہشتگردی کے حالیہ واقعات ہیں۔