Time 29 نومبر ، 2021
صحت و سائنس

کورونا کا نیا ویرینٹ خطرے کی گھنٹی یا قدرت کا تحفہ؟

وبائی امراض کے ماہر پروفیسر کارل لوٹر باخ کا کہنا ہے کہ ابتدائی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اومی کرون کرسمس کا تحفہ ہے اور یہ عالمی وبا کے خاتمے کی رفتار تیز کردے گا— فوٹو: بشکریہ ڈیلی میل
وبائی امراض کے ماہر پروفیسر کارل لوٹر باخ کا کہنا ہے کہ ابتدائی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اومی کرون کرسمس کا تحفہ ہے اور یہ عالمی وبا کے خاتمے کی رفتار تیز کردے گا— فوٹو: بشکریہ ڈیلی میل

جنوبی افریقا میں سامنے آنے والے کورونا وائرس کے نئے ویرینٹ اومی کرون نے دنیا بھر میں پھر ہلچل مچادی ہے۔

جنوبی افریقا اور اس کے آس پاس موجود ممالک پر دنیا کے تقریباً تمام ممالک نے سفری پابندیاں عائد کردی ہیں تاکہ وائرس ان کے ملک میں نہ پہنچ جائے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے عالمی سطح پر اومی کرون ویرینٹ کےممکنہ مزید پھیلاؤ کا امکان ظاہر کردیا ہے اور کہا ہے کہ اومی کرون ویرینٹ کےسبب مستقبل میں کورونا کیسز میں اضافہ ہوسکتاہے جس کےسنگین نتائج ہوسکتےہیں۔

لیکن کیا واقعی کورونا کی یہ نئی قسم خطرے کی گھنٹی ہے یا یہ قدرت کا تحفہ ثابت ہوگی؟ آئیے جانتے ہیں کہ اس حوالے سے ماہرین کیا کہتے ہیں۔

یہ وائرس اب تک ان ممالک میں پہنچ چکا ہے — فوٹو: بشکریہ ڈیلی میل
یہ وائرس اب تک ان ممالک میں پہنچ چکا ہے — فوٹو: بشکریہ ڈیلی میل

جنوبی افریقا کے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ نئے ویرینٹ کی اب تک کوئی شدید علامات سامنے نہیں آئیں اور اس سے متاثرہ افراد میں کورونا کی ہلکی نوعیت کی علامات دیکھی گئیں ہیں۔

جنوبی افریقی حکام کی اس بات کو جرمن ماہرین صحت نے خوشی کی خبر قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر اومی کرون سے متاثرہ مریض میں شدید علامات نہیں پائی جارہیں تو  یہ کرسمس سے قبل قدرت کا تحفہ ہے۔

جنوبی افریقی ماہرین کا کہنا ہے کہ اومی کرون ویرینٹ کے متاثرہ مریض کو سر درد اور تھکان کی علامات سامنے آئی ہیں اور پچھلے ویرینٹس کی طرح اس ویرینٹ سے متاثر کوئی شخص اب تک اسپتال میں داخل نہیں ہوا اور نہ ہی کسی کی موت ہوئی ہے۔

جرمنی کے اگلے متوقع وزیر صحت اور وبائی امراض کے ماہر پروفیسر کارل لوٹر باخ کا کہنا ہے کہ ابتدائی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اومی کرون کرسمس کا تحفہ ہے اور یہ عالمی وبا کے خاتمے کی رفتار تیز کردے گا۔

فوٹو: بشکریہ ڈیلی میل
فوٹو: بشکریہ ڈیلی میل

انہوں نے بتایا کہ اومی کرون میں بہت زیادہ تبدیلیاں ہیں، 32 تبدیلیاں تو صرف اس کے اسپائیک پروٹین میں ہیں جو ڈیلٹا سے دوگنا ہیں اور اب تک متاثرہ مریضوں کا جو ڈیٹا سامنے آرہاہے اس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اومی کرون نے خود کو اس طرح ڈھال لیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر تو کرسکتا ہے لیکن اس کے مہلک اثرات میں کمی آگئی ہے۔

کارل لوٹرباخ نے کہا کہ اگر یہ درست ہے تو پھر اومی کرون کی صورت میں کورونا وائرس بھی نظام تنفس کے دیگر وائرس کی طرح ارتقائی مراحل طے کر رہا ہے۔

یونیورسٹی آف ایسٹ انگلیا کے  متعدی امراض کے ماہر پروفیسر پال ہنٹر کہتے ہیں کہ اومی کرون کی شدت زیادہ نہ ہونے کا نظریہ درست نظر آتا ہے لیکن ممکنہ طور پر اس کی وجہ وائرس کی تبدیلی نہیں بلکہ پچھلے ویرینٹس سے بڑے پیمانے پر ہونے والے انفیکشنز  اور ویکسینیشن مہم ہے جو اس نئے ویرینٹ کے خلاف تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔

فوٹو: بشکریہ ڈیلی میل
فوٹو: بشکریہ ڈیلی میل

اگر ایسا ہے تو بھی یہ اچھی خبر ہے کیوں کہ وائرس چاہے خود کو جتنا بھی تبدیل کرلے انسانی قوت مدافعت سے مکمل طور پر نہیں چھپ سکتا اور جو لوگ ماضی میں کورونا کا شکار ہوئے ہیں یا ویکسین شدہ ہیں وہ اس نئے ویرینٹ سے بھی زیادہ بہتر طریقےسے لڑ سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس ویرینٹ کے اب تک زیادہ شدید کیسز سامنے نہیں آئے۔

ماہرین صحت کافی عرصے سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ شاید کورونا وائرس کبھی ختم نہ ہو ہاں  ممکن ہے کہ یہ اپنی ہیئت تبدیل کرتا ہوا محض زکام کی وجہ بننے والے وائرس کی طرح  رہ جائے۔ 

فوٹو: بشکریہ ڈیلی میل
فوٹو: بشکریہ ڈیلی میل

اومی کرون کے حوالے سے ماہرین فی الحال کوئی حتمی رائے دینے سے گریز کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس ویرینٹ کے اثرات کا جائزہ لینے میں کم سے کم دو ہفتوں کا وقت درکار ہوگا اور اس دوران یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ یہ ڈیلٹا وائرس سے زیادہ خطرناک ہے یا نہیں اور ویکسین کا اس پر کتنا اثر ہورہا ہے۔

اومی کرون ویرینٹ کے زیادہ تر کیسز نوجوانوں میں سامنے آئے ہیں جن میں کم شدت کی علامات پائی گئی ہیں۔

گزشتہ ہفتے اومی کرون کے سامنے آنے کے بعد سے اب تک اس کے زیادہ تر کیسز جنوبی افریقا میں نظر آئے ہیں جہاں ایک ہفتے کے دوران مثبت کیسز کی شرح 20 گنا اضافے کے ساتھ یومیہ 6 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے البتہ اموات کی شرح اپنی جگہ پر موجود ہے۔ 

ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اومی کرون سے اس وقت زیادہ تر نوجوان متاثر ہوئے ہیں ممکن ہے کہ بوڑھے افراد اس سے اتنا بہتر مقابلہ نہ کرسکیں جتنا نوجوان کررہے ہیں کیوں کہ ان کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کو چند ہفتے انتظار کرنا ہوگا یہ جاننے کیلئے کہ نئے ویرینٹ سے درحقیت کتنا خطرہ ہے۔ فی الحال اس سے بچنے کا سب سے بہترین طریقہ ویکسین لگوانا ہی ہے۔

مزید خبریں :