پاکستان
Time 02 دسمبر ، 2021

بلوچستان:کورونا وائرس کی مد میں مختص فنڈز میں کروڑوں روپےکی بے ضابطگیوں کا انکشاف

بلوچستان میں کورونا وائرس کی مد میں مختص فنڈز میں بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے ۔

 حکومت بلوچستان کی جانب سے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے مختص کردہ5ارب 31کروڑ روپے سے زائد کی رقم کے اخراجات میں بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے ۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے مالی سال 2019-20کے دوران کورونا وائرس کی مد میں مختص کئے گئے خصوصی فنڈز کا آڈٹ کیا گیا جس کی آڈٹ رپورٹ بلوچستان اسمبلی میں پیش کردی گئی ہے۔

 آڈٹ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے لیے مختص فنڈز میں4کروڑ15لاکھ روپے کے حکومتی ٹیکسز اورڈیوٹی کی کٹوتی نہیں کی گئی جبکہ 8کروڑ96 لاکھ سےزائد رقم کو غیرقانونی طور پر اکاؤنٹس میں رکھا گیا ۔

رپورٹ کے مطابق شیخ زید اسپتال کی جانب سے ادویات کی خریداری میں 60لاکھ روپے کی مشکوک پے منٹ بھی کی گئی جس کا ریکارڈ پیش نہیں کیاگیا ۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق پرویشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے) کی جانب سے نصیرآباد میں کورونا وائرس اور ٹڈی دل پر قابو پانے کیلئے 2 کروڑ 78 لاکھ سے زائد کی رقم جاری کی گئی جس میں سے 53 لاکھ 98 ہزار  روپے کا حساب موجود نہیں تھاجسے حکومتی خزانے میں دوبارہ جمع کروانے کی تجویز دی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ڈی جی ہیلتھ سروسز کیلئے کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے ادویات کی خریداری کیلئے47 کروڑ 53 لاکھ سے زائد  روپے مختص کئے گئے تاہم انہوں نے 96 کروڑ 90 لاکھ  روپے کی خریداری کی  اور حکومت سے منظوری لیے بغیراخراجات کرنے پر حکومتی خزانے پر 58 کروڑ 67 لاکھ سے زائد  روپے کے اخراجات کا بوجھ پڑا جبکہ اس حوالے سے کسی بھی قسم کی ٹیکنیکل کمیٹی سے تجاویز بھی نہیں لی گئیں۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق ڈی جی ہیلتھ سروسز کی جانب سے ژوب،مستونگ اور کوئٹہ میں ایک لاکھ پی پی ای کٹس سمیت دیگر سامان کی خریداری کیلئے 15 کروڑ سے روپے زائد کا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا۔

آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر کوئٹہ نے 67ہزار350راشن بیگ تقسیم کئے ان میں مختلف سیاسی جماعتوں اور دیگر افراد کوبھی تقسیم کیلئے راشن بیگ جاری کئے گئے جبکہ دراصل ضرورت مندخاندانوں کا تعین ڈسٹرکٹ فوڈ سکیورٹی کمیٹی کے ذریعے کیا جانا تھا راشن کی تقسیم کیلئے کسی بھی قسم کا طریقہ کار نہیں بنایا گیا جس کی وجہ سے 12 کروڑ 65 لاکھ روپے کے راشن کی غیرحقیقی بنیادوں پر تقسیم کی گئی۔

اس کے علاوہ رپورٹ کے مطابق ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کی جانب سے 2 کروڑ  روپے سے زائد کی لاگت سے خریدے گئے راشن میں نہ صرف ڈیپارٹمنٹل اسٹورکو فائدہ پہنچایا گیا بلکہ حکومت کوبھی مالی نقصان پہنچا اوراسکے ساتھ ہی مذکورہ اسٹورکو8 لاکھ روپے سے زائد کی رقم بھی جاری کی گئی ۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق پی ڈی ایم اے کی جانب سے2 کروڑ 35 لاکھ20 ہزار روپے کی لاگت سے پری فیبری کیٹڈ کمرے اور واش رومز کی خریداری کی گئی یہ اخراجات بغیر کسی ٹیکنیکل اور خریداری کمیٹی کے کی گئی۔

اس کے علاوہ شیخ زیداسپتال،فاطمہ جناح اسپتال اور میاں غنڈی میں قائم کیے گئے قرنطینہ مراکز کیلئے کھانے کی فراہمی بھی غیر رجسٹرڈ فرم سے ایک کروڑ 58 لاکھ روپے کی لاگت سے کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق پی ڈی ایم اے کی جانب سےایک کروڑ 33 لاکھ60 ہزار روپے کی لاگت سے 40جنریٹر خریدے گئے تاہم ان میں سے صرف 8 استعمال میں آئے جبکہ 32غیر ضروری طور پرخریدے گئے۔

رپورٹ کے مطابق پی ڈی ایم اے کی طر ف سے ایک کروڑ 90 لاکھ کی لاگت سے 20کنٹینر خریدے گئے جن کی لمبائی سائز اور دیگر خصوصیات کا کسی بھی صورت جائزہ نہیں لیا گیا اور نہ ہی انکی کوالٹی چیک کی گئی۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بے ضابطگیوں اور بے قائدگیوں کی تحقیقات کر کے ذمہ داروں کا تعین اور انکے خلاف کاروائی کرنے کی سفارش کردی۔