دنیا
Time 24 جنوری ، 2022

روس کی جانب سے حملے کا خطرہ، برطانوی سفارتی عملے کا یوکرین سے انخلا

22 جنوری کو لی گئی اس تصویر میں یوکرینی شہریوں کو کیف کے علاقے میں فوجی تربیت لیتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے — فوٹو: واشنگٹن پوسٹ
22 جنوری کو لی گئی اس تصویر میں یوکرینی شہریوں کو کیف کے علاقے میں فوجی تربیت لیتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے — فوٹو: واشنگٹن پوسٹ

برطانیہ نے روس کی جانب سے ممکنہ حملے کے پیش نظر یوکرین سے اپنے سفارتی عملے کا انخلا شروع کردیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ برطانوی سفارتکاروں کو کوئی خاص خطرہ نہیں ہے پھر بھی کیف میں تعینات عملے میں سے نصف کو واپس بلایا جارہا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز امریکا نے بھی اپنے سفارتی عملے کے رشتے داروں کو فوری طور پر یوکرین چھوڑنے کی ہدایت کی تھی اور کہا تھا کہ روس کسی بھی وقت چڑھائی کر سکتا ہے۔

ادھر روس نے یوکرین میں کسی بھی قسم کی عسکری کارروائی کا امکان رد کیا ہے تاہم اس کی سرحد پر ہزاروں کی تعداد میں فوجی پہنچ چکے ہیں۔

یوکرین میں یورپی یونین کا عملہ بدستور موجود رہے گا، یورپی یونین کے فارن پالیسی چیف جوزیف بوریل کا کہنا ہے کہ وہ اس کشیدگی پر ڈرامائی ردعمل نہیں دیں گے۔

یورپی ممالک کا ردعمل

نارتھ ایٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کے رکن ممالک بشمول ڈنمارک ، اسپین، بلغاریہ اور نیدرلینڈز نے مشرقی یورپ میں جنگی طیاروں بحری جہازوں کی تعیناتی شروع کردی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق روس کی یوکرین کے ساتھ ملحق سرحد پر ایک لاکھ کے قریب روسی فوجی موجود ہیں جس پر نیٹو کے سربراہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یورپ میں نیا تنازع جنم لے سکتا ہے۔

خود یوکرین کیا کہتا ہے؟

امریکا نے یوکرین میں موجود اپنے غیر ضروری سفارتی عملے کو بھی نکل جانے کا کہا ہے اور ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اس کا یہ اقدام باضابطہ انخلا کا عمل نہیں بلکہ وہ ایسا اس لیے کر رہا ہے کہ اگر روس نے حملہ کردیا تو وہ انہیں نکالنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔

ساتھ ہی امریکی شہریوں کو یوکرین اور روس کا سفر نہ کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ اس معاملے پر یوکرین کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے سفارتی عملے کے رشتے داروں کو ملک چھوڑنے کا کہنے قبل از وقت ہے اور وہ اس معاملے پر کچھ زیادتی ہی احتیاط برت رہا ہے۔

امریکا کی جانب سے یوکرین کی عسکری معاونت

ہفتے کے روز امریکا کی جانب سے 90 ٹن ’مہلک امداد‘ جس میں مورچوں پر تعینات فوجیوں کیلئے ہتھیار بھی شامل تھے، یوکرین پہنچے۔

امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ارادوں کا جائزہ لیتے ہوئے تمام ضروری اقدامات اٹھائے گی جن میں مزید عسکری امداد کے ساتھ یوکرین کا دفاع مضبوط کرنا بھی شامل ہے۔

روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کیا ہے؟

بشکریہ بی بی سی
بشکریہ بی بی سی

2014 میں یوکرین میں بڑے پیمانے پر مظاہر ے ہوئے اور روس کے حمایت یافتہ یوکرینی صدر کو عہدے سے ہٹادیا گیا، ان مظاہروں کے دوران روس نواز باغیوں نے روسی سرحد کے قریبی علاقوں میں اپنا کنٹرول قائم کیا اور پھر روس نے یوکرین کے علاقے کریمیا سے الحاق کا اعلان کردیا۔

بعد ازاں کریمیا میں روس سے الحاق کے حوالے سے ریفرنڈم ہوا جس میں عوام نے روس کے ساتھ الحاق کی توثیق کی تاہم یوکرین اور مغربی ممالک اس ریفرنڈم کو نہیں مانتے۔ اس الحاق کے بعد سے مشرقی  یوکرین میں روس کے حمایت یافتہ جنگجو یوکرینی فوج سے اب تک لڑتے آرہے ہیں اور اس تنازع میں اب تک 14 ہزار اموات ہوچکی ہیں۔

روس نیٹو سے کیا چاہتا ہے؟

بشکریہ بی بی سی
بشکریہ بی بی سی

روس کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یوکرین کی جانب سے نیٹو میں شمولیت کی خواہش ہے اور روس مغربی ممالک سے یہ وعدہ چاہتا ہے کہ وہ یوکرین کو دفاعی اتحاد کا حصہ نہیں بنائیں گے۔

روس چاہتا ہے کہ یوکرین سمیت اس کی سرحد کے قریب موجود ممالک نیٹو کا حصہ نہ بنیں کیوں کہ وہ اسے خود کو قابو کرنے کی مغربی ممالک اور امریکا کی چال قرار دیتا ہے۔

روس، جو خود نیٹو کا رکن ہے، کا الزام ہے کہ نیٹو اور امریکا مسلسل یوکرین کو دفاعی اتحاد میں شامل ہونے کیلئے اکسا رہے ہیں اور اس کی عسکری مدد بھی کر رہے ہیں۔ روس نے نیٹو سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مشرق کی جانب مزید ممالک کی نیٹو میں شمولیت سے باز رہے بلکہ وہ 1997 والی پوزیشن پر واپس آجائے۔

خیال رہے کہ 1997 کے بعد روس کے قریب موجود کئی ممالک نیٹو کا حصہ بنے ہیں۔

روس چاہتا ہے کہ پولینڈ سے تمام لڑاکا یونٹس واپس بلا لیے جائیں اور ایسٹونیا، لیٹویا، لتھوانیا وغیرہ میں کوئی میزائل تعینات نہ رہے۔

روس یوکرین سے کیا چاہتا ہے؟

بشکریہ بی بی سی
بشکریہ بی بی سی

دسمبر 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یوکرین بھی روس سے علیحدہ ہوگیا تھا تاہم صدر پیوٹن نے اسے ’تاریخی روس کی تقسیم‘ قرار دیا تھا۔ 2014 میں روس نے یوکرین کے ایک بڑے علاقے کریمیا سے الحاق کرلیا۔

گزشتہ برس ایک بار پھر پیوٹن نے کہا کہ روسی اور یوکرینی ایک قوم ہیں۔ انہوں نے یوکرین کے موجودہ حکمران پر روس مخالف مہم چلانے کا الزام بھی لگایا۔

روس اس بات سے بھی خائف ہے کہ 2015 میں ہونے والے منسک معاہدے پر عمل نہیں کیا گیا اور مشرقی یوکرین کے علیحدگی پسند علاقوں میں آزادانہ و شفاف الیکشن نہیں کرائے گئے۔

برطانیہ کا الزام

حال ہی میں برطانیہ نے الزام عائد کیا ہے کہ روس یوکرین میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے اور جلد اس حوالے سے وہ یوکرین پر چڑھائی کا بھی ارادہ رکھتا ہے، اس مقصد کیلئے اس نے سرحد پر فوج بڑھادی ہے۔

برطانیہ کا دعویٰ ہے کہ روس سابق یوکرینی رکن پارلیمنٹ یف ہین مرائیف کو حکومتی سربراہ بنانا چاہتا ہے تاہم اپنے حالیہ انٹرویو میں مرائیف نے اس بات کی تردید کردی ہے۔

برطانیہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر روس نے اپنی مرضی کی حکومت کیلئے یوکرین پر چڑھائی کی تو اسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔

البتہ روس نے عسکری کارروائی کو پروپیگنڈا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ روس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔

لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ اگر روس کا ارادہ محض یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے سے روکنا ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ یوکرین خود نیٹو میں شامل نہ ہو اور ایسا تب ہی ممکن ہے جب وہاں روس کی حمایت یافتہ حکومت ہو۔

مزید خبریں :