بلاگ
Time 27 جنوری ، 2022

پاک ایران گیس پائپ لائن بُھول جائیں؟

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

قومی سلامتی پالیسی میں جیو اکنامکس کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ پاکستان اپنے پڑوسیوں کےساتھ تجارتی روابط کو فروغ دےگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایران سے تجارتی تعلقات مضبوط کیے جائیں گے؟

62 صفحات پر مشتمل عوام کے لیے جاری کردہ پالیسی پیپر میں ایران کا ذکرساڑھے تین لائنوں میں کیا گیا ہے۔ جس میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ پاکستان اورایران کے درمیان تاریخی و مذہبی رشتے ہیں، یہ بھی کہ بطور پڑوسی دونوں ممالک بارڈر مینجمنٹ میں دلچسپی رکھتے ہیں ، علاقائی امن و سلامتی دونوں کے مفاد میں ہے۔ساتھ ہی خفیہ معلومات کاتبادلہ اور سرحدی علاقوں میں پیٹرولنگ دوطرفہ تعلقات پرمثبت اثرات مرتب کرے گی۔

سفارتی زبان کو عام فہم انداز میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ان جملوں کا مطلب یہ ہے کہ پنج سالہ منصوبے میں پاک ایران سرحد محفوظ بنانے کے لیے اقدامات متوقع ہیں ۔  دونوں ملکوں کے درمیان تقریبا ساڑھے نوسو کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ اس سرحد کے تقریبا 75 فیصد حصے پر باڑ لگائی جا چکی ہے ، اس لیے توقع کی جاسکتی ہے کہ اس عمل کو تیزی سے مکمل کیا جائے گا۔

پاک ایران تجارتی حجم قریبا ڈیڑھ ارب ڈالر ہے، کوشش کی جاتی رہی ہےکہ اسے کم سےکم پانچ ارب ڈالرتک بڑھایاجائے۔ اسی سلسلے میں دونوں ملک دو نئی بارڈر کراسنگ اور چھ مشترکہ سرحدی مارکیٹ کے قیام پر بھی کام کررہے ہیں ۔یہ سب اقدامات اپنی جگہ ، پالیسی دستاویز میں یہ نہیں بتایاگیا کہ پاک ایران تجارتی تعلقات کی بہتری کے لیے کیا عملی اقدامات کیے جائیں گے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بینکنگ چینل کھولے جانے کا فی الحال امکان نہیں؟

بینکنگ چینل نہ ہونے کی وجہ سے پاک ایران تجارت کا بڑا حصہ غیرقانونی طور پر کیا جاتا ہے۔ رقوم کی لین دین میں مختلف ذرائع استعمال کیےجاتے ہیں اور بعض صورتوں میٕں پرانے نظام بارٹر سے کام چلایاجاتا ہے، چونکہ اقتصادی حکمت عملی پر بات ہی نہیں کی گئی اس لیے اسمگلنگ کو ختم کرنا ایک چیلنج رہے گا۔

ایران سے متعلق جو باتیں عوام کے لیے جاری کی گئی ہیں اگر انہی کو مکمل پالیسی تصور کرلیا جائے تو اس کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ نامکمل ہی رہےگا۔ یہ منصوبہ مکمل کرلیاجاتاتو ملک کو گیس بحران سے شاید نجات مل سکتی تھی مگر اس منصوبے پر عمل اس لیے بھی دشوارہے کیونکہ امریکا اس پراجیکٹ کا کھل کر مخالف ہے۔

جنوب ایشیائی امور سے متعلق امریکا کے اعلی سفارتکار نے قریباً 6برس پہلے غیررسمی گفتگو میں ہی یہ واضح کردیا تھا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پرعمل ہونے نہیں دیا جائےگا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب ڈیموکریٹ ہلیری کلنٹن اور ری پبلکن ڈونلڈٹرمپ صدارتی الیکشن لڑرہےتھے، اورامکان تھا کہ اگر ہلیری کلنٹن الیکشن جیتیں تو براک اوباما دور کی طرح وہ بھی ایران سے متعلق نسبتاً نرم مؤقف اختیار کریں گی، تاہم امریکی سفارتکارنے دوٹوک انداز میں واضح کردیا تھاکہ ہلیری جیتیں یا ٹرمپ ،پاک ایران گیس پائپ لائن پر امریکا کی پالیسی نہیں بدلےگی۔

سابق صدرٹرمپ کےدور میں امریکا ایران ایٹمی ڈیل یعنی جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن سے یکطرفہ طورپر باہر آگیا تھا۔اب صدربائیڈن کےدورمیں اس فارمیٹ کےتحت مذاکرات کا سلسلہ پھر بحال ہواہے۔ ایران امریکا دوطرفہ بات چیت کے امکانات پر بھی غور کیاجارہا ہے تاہم تہران پر عائد پابندیاں تاحال نہیں ہٹائی گئیں۔

ایک مثبت پیشرفت سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں نسبتاً بہتری پیدا ہونے سے آئی ہے۔ ایران نے ایک بارپھر اپنے سفارتکار جدہ میں تعینات کیے ہیں اور سعودی عرب کو تہران میں سفارتخانہ کھولنےکی پیشکش کی ہے۔ ایران اور سعودی عرب کےدرمیان سردمہری کم ہونے کا فائدہ پاک ایران تعلقات پربھی ہوگا۔ جس سے علاقائی امن اور سلامتی سےمتعلق امور پربھی پیشرفت کاامکان ہے۔

ایران کا افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے بھی اہم کردار ہےکیونکہ پاکستان کی طرح ایران کو بھی افغانستان میں داعش کے بڑھتےاثرپر تشویش ہے۔ ایران ہی کی حکومت طالبان اور ان کے کئی حریف دھڑوں کےدرمیان مذاکرات کی راہ بھی ہموار کررہی ہے۔ شایدیہی وجہ ہےکہ قومی سلامتی سے متعلق دستاویزمیں تسلیم کیاگیا ہےکہ علاقائی امن اور سلامتی دونوں کے مفاد میں ہے اورخفیہ معلومات کاتبادلہ کیاجاناچاہیے۔

قومی پالیسی ایسے پتے نہیں ہوتے جو دوست یا دشمن کو دکھادیے جائیں ۔ کم سے کم ایران کے معاملےپر اس پالیسی دستاویز میں حکومت نے زمین آسمان کی قلابیں نہیں ملائیں، حقیقت پسندی سے کام لیا ہے، یہی اقدام قابل ستائش ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔