28 فروری ، 2022
روس کی جانب سے یوکرین پر حملےکا آج پانچواں روز ہے ایسے میں سوال اٹھ رہا ہےکہ 30 ممالک پر مشتمل سیاسی و عسکری اتحاد نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) یوکرین کے دفاع کے لیے اپنی فوجیں بھیجے گا یا نہیں؟
واضح رہے کہ یوکرین نیٹو کا رکن نہیں ہے تاہم سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سابقہ سوویت یونین میں شامل اکثر یورپی ممالک نے نیٹو میں شمولیت اختیار کرلی تھی جب کہ یوکرین نیٹو کارکن تو نہیں بنا تاہم اس حوالے سے مذاکرات ہوتے رہے ہیں اور روس اس کا شدید مخالف رہا ہے۔
روس کی جانب سےکریمیا کے تنازع میں کردار اور حالیہ تنازع کے بعد سے نیٹو نے یوکرین کو اس کے دفاع کے لیے متعدد یقین دہانیاں کروائی ہیں۔
روس اور یوکرین کے درمیان فوجی طاقت کا کوئی موازنہ نہیں ہے اور یوکرین اپنے سےکہیں گنا زیادہ طاقت ور ملک سے مدمقابل ہے۔
ایسی صورتحال میں ایک برطانوی شہری نےبرطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سوال کیا کہ وہ کون سا وقت ہوسکتا ہے جب نیٹو کے رکن ممالک کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے اور وہ یوکرین کی مدد کے لیے فوجیں بھجوانے پر رضامند ہوجائیں؟
کیف میں موجود بی بی سی کے انٹرنیشنل ڈیسک کے چیف رپورٹر لائز ڈاؤسٹ نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ نیٹو کے رکن ممالک روس کی ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور انہوں نے خبردار کیا ہےکہ ان کا عسکری دفاعی اتحاد اپنے رکن ممالک کی زمین کے ہر انچ کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ نیٹو ممالک نے یوکرین میں اسلحہ اور فوجی سازو سامان بھجوایا ہے اور انہوں نے حالیہ برسوں میں یوکرینی فوجیوں کو تربیت بھی فراہم کی ہے، جو کہ روسی حملےکے خلاف یوکرین کے دفاع کے لیے کیا گیا اقدام ہے تاہم ان کی جانب سے مسلسل یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یوکرینی زمین پر نیٹو کا کوئی فوجی نہیں بھیجا جائےگا کیونکہ یوکرین نیٹو کا رکن نہیں ہے، البتہ اگر روس یوکرین سے آگے نیٹو کے رکن ممالک کی طرف بڑھتا ہے تو صورتحال بدل سکتی ہے۔
خیال رہے کہ نیٹو کے آئین کے مطابق اگر کسی ایک رکن ملک پر حملہ ہو تو وہ تمام اتحادیوں پر حملہ تصور کیا جائےگا۔
لائز ڈاؤسٹ کے مطابق اگر ایسا ہوا تو دنیا ایک غیر یقینی صورتحال میں داخل ہوجائےگی جس میں روس اور نیٹو کے تصادم کا خطرہ خطرناک حد تک بڑھ جائےگا۔