13 مارچ ، 2022
اسلام آباد: رابطوں، ملاقاتوں اور مشاورتی اجلاسوں کے بعد حکومت کی اتحادی جماعتیں اب عدم اعتماد کی تحریک پر حتمی فیصلوں کی طرف بڑھ رہی ہیں اور اطلاعات کے مطابق اس ضمن میں وہ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سے جو ضمانتیں چاہتی تھیں اس سلسلے میں ملنے والی یقین دہانیوں پر بھی اطمینان کا اظہار کر رہی ہیں۔
حکومت کی اتحادی جماعتوں کے ایک بااعتماد ذریعے سے تصدیق ہونے والی تفصیلات کے مطابق دونوں اتحادی جماعتوں کے ارکان نے اس حوالے سے حتمی فیصلے کے لیے ذہن بنا لیا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک میں ان کا ووٹ حکومت کے حق میں نہیں ہوگا۔
مذکورہ ذریعے کے مطابق گوکہ دونوں اتحادی جماعتوں میں اس حوالے سے پہلے قدرے تذبذب موجود تھا اور رائے منقسم تھی لیکن اس کی وجہ ملک میں امن وامان گڈ گورننس کا فقدان اتحادی جماعتوں کے ساتھ حکومتی طرز عمل اور روز افزوں بڑھتی مہنگائی، پانی، بجلی، گیس کی عدم فراہمی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سمیت دوسرے عوامل شامل تھے اور اتحادی جماعتوں کے ارکان بار بار ان خدشات کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ موجودہ حکومت کی عوام میں تیزی سے غیر مقبول ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے جس کا اظہار انہوں نے ضمنی الیکشن میں بھی کیا ہے۔
اب ہم حکومت کے حامی اور ان کے نمائندوں کی حیثیت سے آئندہ الیکشن میں کس منہ سے عوام سے ووٹ مانگنے جائیں گے لیکن اب حکومت کی جانب سے پہلے میلسی اور پھر لوئر دیر میں ہونے والے جلسوں سے وزیراعظم کے خطاب کے بعض حصوں پر شدید اعتراضات اور تحفظات سامنے آنے کے بعد اتحادی جماعتوں کے ارکان کے ساتھ ساتھ قائدین اور راہنماآں کا یقین بھی ’’ڈنواں ڈول‘‘ ہوگیا ہے اور اب انہوں نے عدم اعتماد کی تحریک کے موقعہ پر اپوزیشن کی حمایت کا ذہن بنا لیا ہے۔
بالخصوص لوئر دیر میں وزیراعظم نے اپنے خطاب کے دوران دو مواقعوں پر اپنی گفتگو میں جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ اعلیٰ ایوانوں سے لیکر ریستورانوں اور قہوہ خانوں سے شادی بیاہ کی تقریبات کے شرکاء میں بھی زیربحث ہیں۔ جہاں خود حکومتی جماعت کے حامیوں کے پاس بھی اپنے وزیراعظم کے دفاع کیلئے دلائل اور جواز موجود نہیں ہیں اور انہیں ندامت کے ساتھ خاموشی اختیار کرنی پڑ رہی ہے۔
وزیراعظم نے اپنی تقریر میں نیوٹرل (غیرجانبدار) ہونے کی اپنی جس ’’منطق‘‘ میں اسے جانوروں کے رویے سے تعبیر کیا تھا اسے ملک کے ہر طبقے نے ناپسندیدگی اور ناگواری سے محسوس کیا ہے اور اس ضمن میں یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ ۔
کیا ہمارے ملک میں انصاف فراہم کرنے والی عدلیہ کے ججوں اور دیگر اداروں کے سربراہان کو بھی نیوٹرل (غیرجانبدار) نہیں ہونا چاہیے اور کیا وہ اپنے فیصلوں میں جانبداری کا مظاہرہ کریں؟ پھر اس حوالے سے ایک حساس پہلو یہ بھی ہے کہ صرف دو دن قبل پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ نے اپنی پریس کانفرنس میں ایک سیاسی سوال کے جواب میں ملکی سیاست کے حوالے سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم کی جانب سے ان کی اس ’’منطق‘‘ کو آئی ایس پی آر کے موقف کے تناظر میں دیکھا اور اسے ممکنہ طور پر وزیراعظم کی جانب سے اس کا ردعمل بھی قرار دیا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم اس سے قبل کئی مواقعوں پر نیوٹرل کی تشریح مختلف لفظوں اور مثبت حوالوں سے کرچکے ہیں۔
مثلاً مئی 2018 میں عام انتخابات سے قبل ملک میں نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے انہوں نے کہا تھا کہ اگر ہم ملک میں واقعی صاف شفاف الیکشن کرانا چاہتے ہیں تو اس کیلئے ایک ’’نیوٹرل‘‘ سیٹ اپ ہونا چاہیے اور اس کیلئے جنرل قمر جاوید باجوہ سب سے زیادہ نیوٹرل اور ’’پروڈیموکریٹک جنرل ہیں‘‘۔
پھر وزیراعظم کئی مواقعوں پر فخریہ طور پر اس بات کا کریڈٹ لے چکے ہیں کہ کرکٹ کی 150 سالہ تاریخ میں وہ واحد کپتان ہیں جس نے کہا تھا کہ کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائر آنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ بھی وہ متعدد مواقع پر نیوٹرل ہونے کی تشریح مثبت حوالوں سے کرچکے ہیں جو جلسہ عام میں نیوٹرل کے حوالے سے قطعی متضاد تھی۔
پھر ایک عوامی جلسہ عام میں انہوں نے جس انداز سے اپنی اور پاک فوج کے سربراہ کی گفتگو کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ابھی جنرل باجوہ سے بات ہو رہی تھی انہوں نے مجھے کہا کہ ’’فضل الرحمان کو ڈیزل نہ کہنا‘‘ اس بات پر انہیں جلسہ گاہ میں موجود شرکاء کا جوش وخروش تو دیکھنے کو مل گیا لیکن سنجیدہ طبقات اس صورتحال سے خاصے ’’کبیدہ خاطر‘‘ نظر آئے کہ اگر ایک ایسے موقع پر جب چند دنوں بعد ملک میں اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس ہو رہی ہے اور اہم مہمان 23 مارچ کی پریڈ میں شرکت کے لیے اسلام آباد آرہے ہیں۔
اگر آرمی چیف نے سیاست میں کشیدگی کی حد تک بڑھنے والی محاذ آرائی اور ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دینے سے روکنے کے لیے یہ بات وزیراعظم سے غیر رسمی طور پر کہہ ہی دی تھی تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ اسے عوامی جلسہ عام میں منطرعام پر لایا جائے۔ اگر وزیراعظم اپنے آرمی چیف کی بات پر عمل کرنے سے گریزاں تھے (جو انہوں نے کیا بھی) تو اس کا اظہار کرنا کیا ضروری تھا؟
نجانے وہ اس سے کیا ثابت کرنا چاہتے تھے لیکن وزیراعظم کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز شخصیت سے کسی طور پر بھی اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس سطح پر ہونے والی گفتگو کو عوامی مقامات پر منکشف کرے۔ اپنے وزیراعظم کے اس طرزعمل سے یقیناً ان کے حامی بھی تحفظات رکھتے ہوں گے۔
اعلیٰ بیوروکریسی، ڈپلومیٹک سرکل، اور دیگر اہم شخصیات کے ذہن میں بھی اب یہ خدشات لاحق ہوں گے کہ وزیراعظم کے ساتھ ان کی کسی گفتگو کا حوالہ کسی بھی موقعہ پر عوام کے سامنے آسکتا ہے اور وہ یقیناً آئندہ اس حوالے سے ’’ضروری احتیاط‘‘ برتیں گے۔
اب اگر حکومتی کی اتحادی جماعتیں جن کی حکومت مخالف ’’ذہن سازی‘‘ میں یہ عوامل اور محرکات خاصے معنی رکھتے ہیں اور وہ عدم اعتماد کی تحریک میں اپنا حق رائے دہی اپوزیشن کے حق میں استعمال کرتے ہیں جس کے امکانات خاصے بڑھ چکے ہیں تو پھر اسلام آباد میں اس تناظر میں ’’لاکھوں افراد‘‘ کو لانا ایک ’’بے تعبیر‘‘ خواب ہی ہوگا۔