Time 25 مارچ ، 2022
صحت و سائنس

انسانی خون میں پہلی بار پلاسٹک کے ذرات پائے گئے، ماہرین کو تشویش لاحق

پہلی بار انسانی خون میں پلاسٹک کے ذرات دریافت کرلیے گئے ہیں۔ —فوٹو: فائل
پہلی بار انسانی خون میں پلاسٹک کے ذرات دریافت کرلیے گئے ہیں۔ —فوٹو: فائل

  پہلی بار انسانی خون میں پلاسٹک کے ذرات دریافت کرلیے گئے ہیں۔ 

پلاسٹک کے فضلے کی بڑی مقدار ماحول میں شامل ہورہی ہے جو ماحول کو آلودہ کرنے کا سبب بن رہی ہے جس کی وجہ سے انسانی جسم میں خوراک، پانی اور ہوا کی صورت میں یہ پلاسٹک کے ذرات شامل ہوتے ہیں۔

تاہم اب نیدرلینڈز کی وریجے  یونی ورسٹی کےمحقق پروفیسر ڈِک ویتھاک اور ان کے ساتھیوں نے تحقیق کی ہے جس میں ثابت ہوا ہے کہ انسانی خون میں  پلاسٹک کے ذرات موجود ہیں۔

رپورٹس کے مطابق اس تحقیق میں محققین نے 22 صحت مند نوجوانوں کے خون کے نمونوں کا جائزہ لیا جس میں سے 17 افراد کے خون میں پلاسٹک کے چھوٹے ذرات پائے گئے۔

محققین کا کہنا ہے کہ ان پلاسٹک کے ذرات کا انسانی صحت پر کیا اثر ہوتا ہے اس حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

تاہم تجربہ گاہ میں اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ  پلاسٹک کے ذرات انسانی خلیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ فضائی آلودگی کے ذرات پہلے ہی جسم میں داخل ہوتے ہیں اور ایک سال میں لاکھوں افراد کی قبل از وقت موت کا سبب بنتے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق تحقیق میں شامل خون کے آدھے نمونوں میں پی ای ٹی پلاسٹک پایا گیا،جو عام طور پر مشروبات کی بوتلوں کو بنانے میں استعمال ہوتا ہے جبکہ ایک تہائی نمونوں میں پولی اسٹیرین تھا جو کھانے کی اشیا اور دیگر مصنوعات کی پیکنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 

اس کے علاوہ خون کے نمونوں میں سے ایک چوتھائی میں  پولی تھیلین ملا جس سے پلاسٹک کے  بیگ بنائے جاتے ہیں۔

پروفیسر ڈِک ویتھاک کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیق پہلا اشارہ ہے کہ انسانی خون میں پلاسٹک کے ذرات ہیں، یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بڑا سوال یہ ہے کہ یہ پلاسٹک کےذرات ہمارے جسم میں کیا کررہے ہیں؟ کیا یہ جسم میں ہی رہتے ہیں اور کیا یہ بعض اعضاء تک پہنچتے ہیں؟ ان سب سوالوں کے جوابات کیلئے  ہمیں فوری طور پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

 انہوں نے  مزیدکہا کہ ہمیں تحقیق کے دائرے کو بڑھانا ہے اور زیادہ سے زیادہ نمونے حاصل کرنے ہیں تاکہ اس میں  پلاسٹک کے ذرات کی تعداد کا اندازہ لگایا جاسکے۔

رپورٹس کے مطابق یہ تحقیق  طبی جریدے جرنل انوائرمنٹل انٹرنیشنل میں شائع ہوئی۔

مزید خبریں :