29 مارچ ، 2022
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کی سماعت میں عدالت نے سوال کیا کہ کیا ایک شخص کو تاحیات نااہل کرنے کیلئے انحراف کی بنیاد کافی ہے؟
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس پرسماعت کی جس سلسلے میں اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اٹارنی جنرل سے آج سوالات نہیں ہوں گے، وہ اپنے دلائل مکمل کریں۔
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایاکہ وزیراعظم سے عدالتی سوالات پر بات ہوئی ہے، وزیراعظم کے توسط سے عدالت میں بیان دینا چاہتا ہوں، وزیراعظم سپریم کورٹ اور ججز کا بہت احترام کرتے ہیں، انہوں نے کمالیہ جلسے میں1997 میں ججزکو ساتھ ملانے کی بات کی تھی، وہ ججز کی غیر جانبداری اور عدالت کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ اگر اسمبلی ٹوٹ جائے تو کوئی ممبر اپنی رکنیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا، منحرف اراکین کیلئے آئین کہتا ہے کہ وہ ممبرنہیں رہےگا اور سیٹ خالی تصور ہوگی، سیٹ خالی تصور ہونے کا مطلب ہے کہ دوبارہ الیکشن ہوگا۔
اٹارنی جنرل کے دلائل پر جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ایک ممبرکوڈی سیٹ ہونےکے بعد کس بنیاد پر نااہل ہونا چاہیے، پارلیمنٹ نااہلی کی مدت 2 یا 5 سال تک مقرر کرسکتی ہے، کیا ایک شخص کو تاحیات نااہل کرنے کیلئے انحراف کی بنیاد کافی ہے؟ جب کہ جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ 62 اے میں ترمیم کرکے نااہلی کی مدت کیوں مقرر نہیں کررہی؟
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا دنیا کے کسی قانون میں نااہلی انحراف کے بنیاد پرہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ دنیا کے کسی قانون میں تاحیات نااہلی بھی نہیں ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ 63 اے میں نااہلی کی مدت کے تعین کے لیے قانون سازی کرسکتی ہے جب کہ جسٹس اعجاز نے سوال کیا کہ پارٹی سے انحراف پر ڈی سیٹ تو ہوگا،کیا تاحیات نااہلی ہونی چاہیے؟ جوتکلیف جماعتیں نہیں کرنا چاہتی وہ آپ سپریم کورٹ سے کرانا چاہتے ہیں۔
اس موقع پرچیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگرانحراف کوبہت برا اقدام سمجھا جائے کہ اس کی سزا نااہلی ہونی چاہیے، ہم قانون سازنہیں ہیں، ہم صرف قانون کی تشریح کرسکتے ہیں، ہم آئین کو نئے سرے سے نہیں لکھ سکتے، کیا یہ بحث آئین بنانے والوں کی نیت جان سکتی ہے؟