03 اپریل ، 2022
ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کو آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا۔
ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی سربراہی میں اسمبلی ہونے والے ہنگامہ خیز اجلاس میں وزیر قانون فواد چوہدری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 7 مارچ کو ایک میٹنگ ہوتی ہے اور اس کے ایک روز بعد 8 مارچ کو وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جاتی ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ہمارے سفیر کو 7 مارچ کو ایک میٹنگ میں طلب کیا جاتا ہے، اس میں دوسرے ممالک کے حکام بھی بیٹھتے ہیں، ہمار ےسفیر کو بتایا جاتا ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جاری ہے، اس وقت تک پاکستان میں بھی کسی کو پتہ نہیں تھا کہ تحریک عدم اعتماد آ رہی ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہمارے سفیر کو بتایا جاتا ہے کہ پاکستان سے ہمارے تعلقات کا دارومدار اس عدم اعتماد کی کامیابی پر ہے، اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو آپ کو معاف کر دیا جائے گا لیکن اگر اعتماد کامیاب نہیں ہوتی تو آپ کا اگلا راستہ بہت سخت ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ غیر ملکی حکومت کی جانب سے حکومت کی تبدیلی کی بہت ہی متاثر کوشش ہے، بدقسمتی سے اس کے ساتھ ہی اتحادیوں اور ہمارے 22 لوگوں کا ضمیر جاگ جاتا ہے اور معاملات یہاں تک آ پہنچتے ہیں۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کیا یہ 22 کروڑ لوگوں کی قوم اتنی نحیف و نزار ہے کہ باہر کی طاقتیں یہاں پر حکومتیں بدل دیں، ہمیں بتایا جائے کہ کیا بیرونی طاقتوں کی مدد سے حکومت تبدیل کی جا سکتی ہے، کیا یہ آئین کے آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ کیا پاکستان کے عوام کتھ پتلیاں ہیں؟ کیا ہم پاکستانیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے؟ کیا ہم غلام ہیں؟ کیا اپوزیشن لیڈر کے بقول ہم بھکاری ہیں؟
فواد چوہدری کا کہنا تھا اگر ہم غیر مند قوم ہیں تو یہ تماشہ نہیں چل سکتا اور اس پر رولنگ آنی چاہیے۔
اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے ارکان پیدل چل کر پارلیمنٹ لاجز پہنچے جب کہ منحرف ارکان بھی اپوزیشن کی لابی میں پہنچے۔
سابق صدر آصف زرداری، شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بھی قومی اسمبلی میں موجودد ہیں۔
وفاقی وزیر کے اظہار خیال کے بعد ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت کسی بھی غٖیر ملکی طاقت کے کہنے پر حکومت تبدیل نہیں کی جا سکتی لہذا اپوزیشن کی 8 مارچ کو وزیراعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کو آئین سے انحراف قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا جاتا ہے اور قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا جاتا ہے۔
مسلم لیگ (ق) کے رہنما طارق بشیر چیمہ ،چوہدری سالک حسین اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ گئے۔
طارق بشیر چیمہ کا کہنا تھا کہ وہ ووٹ ڈالنے نہیں آئے بلکہ کسی اور کام سے آئے ہیں۔
اپوزیشن نے 176 ارکان پارلیمنٹ ہاؤس پہنچا دیے ہیں جب کہ حکومتی ارکان بھی سرپراز دینے کے دعوے پر قائم ہیں۔
مریم اورنگزیب کا کہناہےکہ پارلیمنٹ میں اس وقت موجود ہمارے 176 ارکان ہیں جب کہ پارلیمنٹ میں ٹی آئی ارکان کی تعداد 21 ہے۔
شہباز شریف کی پارلیمنٹ ہاؤس آمد
آصف زرداری اور بلاول کی پارلیمنٹ ہاؤس آمد
قومی اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق قائد حذب اختلاف شہباز شریف کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کی گئی عدم اعتماد کی قرارداد پرووٹنگ کی جائےگی۔
وزیر اعظم عمران خان کےخلاف عدم اعتماد کی قرارداد پرووٹنگ ایجنڈےمیں شامل ہے۔ اس قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ایوان وزیراعظم عمران خان پرعدم اعتماد کرتا ہے، عمران خان ایوان کا اعتماد کھوچکے لہٰذا وزیراعظم کے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتے۔
وزیراعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد پر ہونے والی ووٹنگ کے حوالے سے اپنی حکمت عملی تبدیل کرلی ہے۔
وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کے ارکان بھی قومی اسمبلی کے اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ وزیراعظم عدم اعتمادکا ووٹ جیتنےکے لیے پر عزم ہیں، پی ٹی آئی ارکان آج اسمبلی اجلاس میں شرکت کریں گے۔
اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے بطور پارٹی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف تمام اراکین قومی اسمبلی کو خط لکھ کر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دوران اسمبلی نہ جانے کی ہدایت کی تھی تاہم اب تمام ارکان اسمبلی شرکت کریں گے۔
وزیراعظم نے اب تک ہار نہیں مانی ہے اور انہیں پورا یقین ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں وہ سرخرو ہوکر نکلیں گے۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ میں کبھی ہارنے کا نہیں سوچتا، سارا وقت پلان کرتا ہوں کیسے جیتنا ہے، اچھا کپتان کبھی ہارنے کا نہیں سوچتا، آج کی میری ساری حکمت عملی تیار ہے ۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بہت کم لوگوں کو میری حکمت عملی پتہ ہے، بات باہر نکل جاتی ہے۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی زیرصدارت متحدہ اپوزیشن کا اجلاس ہوا جس میں سابق صدرآصف زرداری، بلاول بھٹو، اسعد محمود ، اختر مینگل، خالد مگسی، خالد مقبول صدیقی اور شاہ زین بگٹی سمیت ممبران شریک ہوئے جب کہ اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کی قانونی ٹیم بھی شریک ہوئی۔
ذرائع کےمطابق اجلاس میں قانونی ٹیم نے ممبران کو قانونی نکات پر بریفنگ دی جب کہ اپوزیشن نے آج کے قومی اسمبلی اجلاس کے لیے حکمت اعملی طے کرلی ہے۔
اپوزیشن نے حکومتی ارکان کے شور شرابے یا اشتعال کا جواب نہ دینے کا فیصلہ کیا۔
اپوزیشن نے فیصلہ کیاہے کہ کسی بھی صورت تحریک عدم اعتماد کی کارروائی روکنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔
ہنگامہ آرائی کا خطرہ
جیو نیوز کے سینیئر اینکر پرسن حامد میر کے مطابق فیصلہ کیا گیا ہے کہ اپوزیشن ارکان کو پہلے پارلیمنٹ لاجز میں ہی روکا جائے گا تاکہ وہ قومی اسمبلی نہ پہنچ سکیں، جو ارکانِ قومی اسمبلی پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے انہیں زد و کوب کیے جانے کا خدشہ ہے۔
حامد میر کے مطابق منصوبہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کرنے والوں کو ڈی چوک سے آگے رسائی دے دی جائے۔ معلوم ہوا ہے کہ آج ووٹنگ کے عمل میں تاخیر کی تجویز کی اسپیکر نے مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ آج آخری دن ہے ، ووٹنگ کو مؤخر نہیں کرسکتے۔
سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کو بتایا ہے کہ اس بات کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک کوئی بین الاقوامی سازش ہے، اگر حکومت کے پاس اس بارے میں شواہد ہیں تو مہربانی کر کے فراہم کر دے۔
تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کا طریقہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں موجود وہ ارکان جو چاہتے ہیں کہ وزیراعظم کو عہدے سے ہٹا دیا جائے وہ اپنی نشستوں سے اٹھ کر ایک طرف ہوجاتے ہیں اور ان کی تعداد کو گِن لیا جاتا ہے۔
اسی طرح وہ ارکان اسمبلی جو چاہتے ہیں کہ وزیراعظم عہدے پر برقرار رہیں ان کے پاس یہ چوائس ہوتی ہے کہ وہ اپنی نشستوں پر براجمان رہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اگر حکومت کا کوئی رکن اٹھ کر اپوزیشن کی جانب چلا جائے تو اس کی نشاندہی بھی ہوجائے۔ایسے رکن اسمبلی پر فلور کراسنگ کی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے اور بات نا اہلی تک جاسکتی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے جادوئی نمبر ’172‘ ہے جو کہ موجودہ ایوان کی کل تعداد کی سادہ اکثریت ہے۔ چونکہ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن نے جمع کرائی ہے لہٰذا یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ رائے شماری والے دن وزیراعظم کیخلاف 172 ارکان کو پیش کریں۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو کیا ہوگا؟
اگر اپوزیشن 172 ارکان کی حمایت پیش کرنے میں ناکام رہی تو وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی اور وہ عہدے پر براجمان رہیں گے۔
تاہم اگر اپوزیشن 172 یا اس سے زائد ارکان کو سامنے لے آئی تو وزیراعظم کو عہدہ چھوڑنا پڑے گا ساتھ ہی ان کی پوری کابینہ بھی تحلیل ہوجائے گی۔