عثمان بزدار کے استعفے اور چوہدری سرور کو فارغ کرنےکی اندرونی کہانی سامنے آگئی

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

پنجاب میں  وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے استعفے اور گورنر چوہدری سرور کو فارغ کرنےکی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔

ذرائع کے مطابق یکم اپریل کو گورنر ہاؤس میں چوہدری سرور نے عثمان بزدارکا استعفٰی منظور کیا تھا اور استعفٰی منظور کرنے سے پہلے عثمان بزدار سے تصدیق  بھی کی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہےکہ اسپیکر پرویز الہٰی اور محمود الرشید نے انہیں کہا کہ استعفٰی منظور کرلیں۔

بعد ازاں  یکم اپریل کی شام کو چوہدری سرور کو اسلام آباد طلب کرلیا گیا، جہاں عمران خان کے ساتھ پرویزخٹک اور دوسرے رہنما بھی موجود تھے۔

 اس موقع پر چوہدری سرور کو کہا گیا کہ  وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے کل ہی اجلاس بلائیں،  چوہدری سرور نےکہا  کہ استعفےکے نوٹیفکیشن سے پہلے اجلاس بلانا غیر آئینی ہے، اس گفتگو کے دوران عمران خان کام سے چلے گئے، اسی دوران پی ٹی آئی کے ایک وزیر نے چوہدری سرور  پر اپوزیشن سے ملنےکا الزام لگایا۔

عمران خان دوبارہ واپس آئے تو ان کے کہنے پر چوہدری سرور نے 2 اپریل کو اجلاس بلالیا، چوہدری سرور ناراض ہو کر نکلے اور سرکاری طیارہ واپس بھیج دیا، چوہدری سرور سرکاری گاڑی کے بجائے اپنے دوست کے ساتھ لاہور آئے۔

ذرائع کے مطابق لاہور آنے کے بعد چوہدری سرور کو اسلام آباد سے فون آیا کہ اسمبلی میں 186 سے ووٹ کم ملیں تو اسمبلی توڑدیں، چوہدری سرور نے اسمبلی تحلیل کرنےکا غیر آئینی کام کرنے سے انکار کردیا، پھر 2 اپریل کو رات کو فون آیا کہ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیں، چوہدری سرور نے کہا کہ ایجنڈا جاری ہوچکا،اجلاس ملتوی کرنا غیرآئینی ہے۔

بعد ازاں  3 اپریل کی صبح اسلام آباد سے فون آیا کہ چوہدری سرور  صاحب آپ کو فارغ کردیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ موجودہ گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے سردار عثمان بزدار کے بطور وزیراعلیٰ استعفے کی منظوری پر اعتراض اٹھا تے ہوئے  ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو خط لکھ دیا ہے۔

عمر سرفراز چیمہ نے خط میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے عثمان بزدار کے استعفے کی منظوری کی قانونی حیثیت سے متعلق دریافت کیا ہے۔

گورنر پنجاب نے عثمان بزدار کے استعفے کی منظوری پر اعتراض اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ استعفے کی منظوری میں کوئی آئینی خلاف ورزی تو نہیں کی گئی۔

مزید خبریں :