22 اپریل ، 2022
وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ پاکستانی سفیر اسد مجید نے پروفیشنل طریقے سے ڈی مارش کی سفارش کی لیکن اسے سیاست کی نذرکردیا گیا۔
اپنے بیان میں حنا ربانی کھر کا کہنا تھاکہ آج قومی سلامتی کمیٹی میں اسد مجید سے سائفر سے متعلق پوچھا گیا، سفیر نے وضاحت کے ساتھ سائفر کے مندرجات سے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کوآگاہ کیا۔
ان کا کہنا تھاکہ سائفرمیں جوزبان استعمال کی گئی اس کی بنیاد پرسفیر نے ڈی مارش کی تجویزدی تھی، سفیرنےکہاسائفرمیں جوزبان استعمال کی گئی وہ غیرمعمولی تھی، اسد مجید نے پروفیشنل انداز میں اپنافرض اداکیا۔
خارجہ حناربانی کھر کا کہنا تھاکہ سائفرمیں افغانستان، یوکرین اور پاک امریکا تعلقات پربات کی گئی تھی، سابق حکومت نے اس سائفر کو کبھی خط کہاتوکبھی مراسلہ کہا، اتنی بڑی دھمکی تھی تو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے سےاحتجاج کیوں نہیں کیا؟ مراسلہ آنے کے بعد کئی روز خاموش کیوں بیٹھے رہے؟
ان کا کہنا تھاکہ ادارے اور مراسلہ لکھنےوالےسفیرمتفق ہیں اسےسازش نہیں کہاجاسکتا، سابقہ حکومت کی جانب سےجھوٹ اس تواترسےبولا گیا کہ سچ محسوس ہونے لگے۔
علاوہ ازیں جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے حنا کھر کا کہنا تھاکہ ملک کے مسائل کو حل کرنا ہے تو کام کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سفیر نےجس ملاقات کا ذکرکیا وہ وفود سطح کی ملاقات نہیں تھی، سائفر ہونےکا مقصد ہوتا ہے کہ کھلے خط میں ذکرنہیں کرنا چاہتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیلی گرام کی آخری تین لائنوں میں اسسمنٹ کا ذکر تھا جس میں کہا گیا کہ اسلام آباد میں امریکی سفیر کو بلا کر ڈی مارش کریں اور پوچھیں کہ ڈونلڈ لو نے جو کہا ہے وہ امریکی حکومت کی پوزیشن ہے یا ایک آدمی کی رائے ہے؟
حنا ربانی کھر کا کہنا تھاکہ سازش ہوئی تھی تومتعلقہ چینلز کے ذریعے ڈی مارش کی سفارش کیوں کی گئی؟ شاہ محمود قریشی کو بتادیا گیا تھا لیکن انہوں نےڈی مارش نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سفیر اسد مجید نے پروفیشنل طریقے سےسفارش کی لیکن اسے سیاست کی نذرکردیا گیا، غیرمناسب طریقے سے نمٹنے کی وجہ سے ہماری وزارت خارجہ پردباو آیا ہے، سائفر کو سیاسی مقاصدکےحصول کےلیے منظرعام پرلایاگیا۔
واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں امریکا میں تعینات سابق سفیر پاکستانی سفیر اسد مجید نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر بریفنگ دی گئی۔
اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ خفیہ اداروں نے مراسلے کی تحقیقات کیں، دوران تحقیقات غیرملکی سازش کے ثبوت نہیں ملے۔ سکیورٹی اداروں کی تحقیقات کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی، اجلاس میں قومی سلامتی کمیٹی کے گزشتہ اجلاس کے فیصلوں کی توثیق بھی کی گئی۔
یاد رہے کہ 27 مارچ 2022 کو تحریک انصاف کے چیئرمین اور اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں جلسے کے دوران ایک خط لہرا کر دکھاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کو گرانے کی سازش ایک بہت ہی طاقتور ملک کی جانب سے کی گئی۔
بعد ازاں اس معاملے پر دفتر خارجہ نے اسلام آباد میں تعینات امریکی ناظم الامور سے احتجاج کرتے ہوئے ڈی مارش بھی جاری کیا تھا۔
اسی معاملے پر 31 مارچ کو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا۔