Time 25 مئی ، 2022
پاکستان

سپریم کورٹ کا پی ٹی آئی کو ایچ نائن اور جی نائن کے درمیان گراؤنڈ میں جلسہ گاہ فراہم کرنے کا حکم

ایسا پلان دیں کہ مظاہرین پرامن طریقے سے آئیں اور احتجاج کے بعد گھروں کو لوٹ جائیں، یہ نہ ہو جلسے کے بعد فیض آباد یا موٹروے بند کر دی جائے، جسٹس اعجاز  الاحسن— فوٹو: فائل
ایسا پلان دیں کہ مظاہرین پرامن طریقے سے آئیں اور احتجاج کے بعد گھروں کو لوٹ جائیں، یہ نہ ہو جلسے کے بعد فیض آباد یا موٹروے بند کر دی جائے، جسٹس اعجاز الاحسن— فوٹو: فائل

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ایچ نائن اور جی نائن کے درمیان گراؤنڈ میں جلسہ گاہ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایسا پلان دیں کہ مظاہرین پرامن طریقے سے آئیں اور احتجاج کے بعد گھروں کو لوٹ جائیں، یہ نہ ہو جلسے کے بعد فیض آباد یا موٹروے بند کر دی جائے۔ 

سپریم کورٹ نے اس معاملے پر پی ٹی آئی اور حکومت کو مشاورت کاحکم دیا اور اٹارنی جنرل کو  پی ٹی آئی کے مطالبات پر ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کرنے کا کہا۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’بابر اعوان صاحب آپ پوچھ کر بتائیں احتجاج کب تک رہے گا؟ یہ نہ ہو جلسے کے بعد فیض آباد یا موٹروے بند کر دی جائے، ایسا پلان دیں کہ مظاہرین پرامن طریقے سے آئیں اور احتجاج کے بعد گھروں کو لوٹ جائیں، سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کچھ عرصہ قبل احتجاج پر جو وعدہ کیا وہ پورا کیا۔‘

اس موقع پر تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہم بھی ایسا ہی کریں گے، ہمارا نئے الیکشن کا مطالبہ ہے اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ وزیراعظم شہباز شریف  وزرا  پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں، کمیٹی پی ٹی آئی کی جلسہ گاہ اور الفاظ کے چناؤ کے معاملے کو دیکھے گی۔ 

پی ٹی آئی کو گرفتاری کا خطرہ ہے تو ہمیں نام بتائیں، ہم حفاظتی حکم دیں گے، جسٹس اعجازالاحسن

قبل ازیں سپریم کورٹ نے ضلعی انتظامیہ کو  پی ٹی آئی کے جلسے کے لیے متبادل جگہ فراہم کرنے اور ٹریفک پلان بنا کر  ڈھائی بجے تک عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ بار کی جانب سے پی ٹی آئی کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

وفقے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہو اتو آئی جی اسلام آباد سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں، آئی جی صاحب آپ چار دن پہلے تعینات ہوئے، آئی جی صاحب آپ پر پہلے ہی بہت کیسز اور الزامات کا بوجھ ہے، اپنے آپ میں رہیں، اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور پوری کریں۔ 

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر  پی ٹی آئی کو گرفتاری کا خطرہ ہے تو ہمیں نام بتائیں، ہم حفاظتی حکم دیں گے، سپریم کورٹ نے سب کا تحفظ کرنا ہے، کوئی کہیں بھی ہو، پاکستان ادھر ہی ہے۔

حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق عمران خان پر خودکش حملے کا خطرہ ہے: اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے سری نگر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست دی جو مسترد کر دی گئی۔

اشتر اوصاف نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کی زندگی کو خطرہ ہے، حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق عمران خان پر خودکش حملے کا خطرہ ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ اصل ایشو سے دور جا رہے ہیں، کیا پولیس چھاپے مار کر لیڈرز اور کارکنوں کو حفاظتی تحویل میں لے رہی ہے؟ راتوں کو گھروں میں چھاپے مارنے سے کیا ہوتا ہے؟ حکومت کو سری نگر ہائی وے کا مسئلہ ہے تو لاہور، سرگودھا اور باقی ملک کیوں بند ہے؟

کیا وزارت داخلہ صرف ڈاکخانے کا کام کرتی ہے؟ جسٹس منیب کا سیکرٹری داخلہ سے مکالمہ 

صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار  نے عدالت میں کہا کہ ایک سڑک بند ہونے سے بچانے کے لیے پورا ملک بند کر دیا گیا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انتظامیہ مکمل پلان پیش کرے کہ احتجاج بھی ہو اور  راستے بھی بند نہ ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر اتنا خطرہ ہے تو حکومت ہدایات جاری کر دے کہ کوئی مارچ نہیں ہو گا، کیا سیاسی قیادت کو خطرہ صرف سری نگر ہائی وے پر ہی ہے؟ 

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ سیکرٹری داخلہ صاحب جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے اسکی ذمہ داری لیتے ہیں؟  

سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ لاء اینڈ آرڈر صوبوں کا کام ہے،  جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہ کہ کیا وزارت داخلہ صرف ڈاکخانے کا کام کرتی ہے؟ جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا وزارت داخلہ نے کوئی پالیسی ہدایات جاری کی ہیں؟

عدالت کو یقین دہانی کرائیں کہ تشدد نہیں ہو گا اور راستے بھی بند نہیں ہوں گے: جسٹس اعجاز

سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ وزارت داخلہ نے صوبوں کو کوئی ہدایت نامہ جاری نہیں کیا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سب بہاریں پاکستان کی وجہ سے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ سکیورٹی تھریٹ کی رپورٹ کس نے دی ہے؟ جس پر سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ دو انٹیلی جنس ایجنسیوں اور نیکٹا نے سکیورٹی تھریٹ رپورٹ دی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایسا پلان دیں کہ مظاہرین پرامن طریقے سے آئیں اور احتجاج کے بعد گھروں کو لوٹ جائیں، عدالت کو یقین دہانی کرائیں کہ تشدد نہیں ہو گا اور راستے بھی بند نہیں ہوں گے۔

ملک میں جو ہو رہا ہے وہ سب کو نظر آ رہا ہے: جسٹس اعجاز الاحسن

قبل ازیں جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اسلام اباد میں تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ، اسکول اور ٹرانسپورٹ بند ہے، معاشی لحاظ سے ملک نازک دور اور دیوالیہ ہونے کے درپے ہے۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ عدالت معیشت سے متعلق آبزرویشن دینے سے گریز کرے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ملک میں جو ہو رہا ہے وہ سب کو نظر آ رہا ہے، کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کر دیا جائے گا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق تمام امتحانات ملتوی، سڑکیں اور کاروبار بند کر دیے گئے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے تفصیلات کا علم نہیں، معلومات لینے کا وقت دیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ کو نظر نہیں آ رہا ملک میں کیا حالات ہیں؟ سپریم کورٹ کا آدھا عملہ راستے بند ہونے کی وجہ سے پہنچ نہیں سکا۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ اسکولوں کی بندش کے حوالے سے شاید آپ میڈیا رپورٹس کا حوالہ دے رہے ہیں، میڈیا کی ہر رپورٹ درست نہیں ہوتی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اسکولوں کی بندش اور امتحانات ملتوی ہونے کے سرکاری نوٹیفکیشن جاری ہوئے ہیں جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بنیادی طور پر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہ رہی ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ خونی مارچ کی دھمکی دی گئی ہے، بنیادی طور پر راستوں کی بندش کے خلاف ہوں لیکن عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں، راستوں کی بندش کو سیاق و سباق کے مطابق دیکھا جائے۔

مزید خبریں :