دنیا
Time 02 جون ، 2022

برطانیہ میں ایک سے دوسرے فرد میں منکی پاکس پھیلنے کی تصدیق

خوردبین میں منکی پاکس وائرس کے ذرات / رائٹرز فوٹو
خوردبین میں منکی پاکس وائرس کے ذرات / رائٹرز فوٹو

منکی پاکس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ متعدی مرض نہیں یعنی ایک سے دوسرے فرد میں آسانی سے نہیں پھیلتا۔

مگر برطانیہ میں یہ بیماری ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہورہی ہے۔

یہ بات یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کی جانب سے جاری بیان میں بتائی گئی۔

اس سے قبل ماضی میں جب مغربی اور وسطی افریقا میں اس کے کیسز سامنے آئے تھے تو یہ مانا گیا تھا کہ ایک سے دوسرے فرد کے درمیان بہت زیادہ قربت ہی بیماری پھیلنے کی وجہ ہوتی ہے۔

مگر یوکے ایچ ایس اے نے بتایا کہ برطانیہ میں پہلی بار یہ وائرس ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہورہا ہے، ورنہ اس سے قبل اس کے کیسز کسی افریقی ملک میں سفر کا نتیجہ ہوتے تھے۔

برطانوی ادارے کے مطابق لندن میں 132 کیسز کی تصدیق ہوئی ہے جن میں سے 111 کیسز ہم جنس پرست مردوں کے ہیں جبکہ صرف 2 خواتین اس بیماری سے متاثر ہوئی ہیں۔

برطانیہ میں 31 مئی تک 190 کیسز کی تصدیق ہوئی تھی اور ان میں سے صرف 18 فیصد مریض ایسے تھے جو یورپ کے مختلف ممالک کا سفر کرکے آئے تھے۔

یوکے ایچ ایس اے نے بتایا کہ وائرس کے پھیلنے کی وجہ جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہے اور اس وقت کسی ایک وجہ کو وائرس کے پھیلاؤ سے منسلک نہیں کیا جاسکتا۔

واضح رہے کہ یکم جون تک 30 ممالک میں منکی پاکس کے 550 سے زیادہ کیسز کی تصدیق ہوچکی تھی۔

دوسری جانب عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ متعدد ممالک میں اچانک منکی پاکس کے کیسز سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس کا پھیلاؤ کچھ عرصے سے ہورہا تھا مگر وہ پکڑ میں نہیں آسکا۔

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم گھیبریوسس نے یکم جون کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب تک زیادہ تر کیسز ہم جنس پرست مردوں میں سامنے آئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے یہ خیال ذہن میں بٹھا لیا کہ منکی پاکس سے صرف ہم جنس پرست افراد متاثر ہوتے ہیں تو اس سے نہ صرف متاثرہ افراد کے لیے طبی سہولیات کا حصول مشکل ہوگا بلکہ وائرس کو پھیلنے سے روکنا بھی مشکل ہوجائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ منکی پاکس سے متاثر افراد کے قریب جانے والا کوئی بھی فرد اس بیماری کا شکار ہوسکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈبلیو ایچ او کو مزید کیسز دریافت ہونے کی توقع ہے اور یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ عموماً اس بیماری کی علامات خود ختم ہوجاتی ہیں مگر کچھ کیسز میں مریض بہت زیادہ بیمار ہوسکتا ہے تو طبی امداد کے لیے رجوع کیا جانا چاہیے۔