05 جون ، 2022
ملتانی آم کی مٹھاس پوری دنیا میں الگ پہچان رکھتی ہے لیکن اس بار موسمیاتی تبدیلی میں وقت سے پہلے پڑنے والی شدید گرمی کے باعث آم کی پیداوار میں کمی کا سامنا ہے۔
ملتان کے جاوید نے 10 ایکٹر رقبے پر آم کا باغ لگا رکھا ہے، آم کا ایک پودا تقریباً 10 سال بعد درخت بن کر پھل دینے کے قابل ہوتا ہے تاہم اس دوران اسے ہر سال کھاد، پانی اور اسپرے کی باقاعدہ ضرورت پڑتی ہے۔
جاوید کو امید تھی مقررہ مدت پوری ہونے پر اس سال آم اسے منافع دیں گے لیکن پانی کی قلت نے اس کی طویل محنت ضائع کر دی، جاوید کا ایک ایکٹر پر 40 سے 50 ہزار روپے کا خرچہ ہوا ہے، اس باغ کو 15 سے 18 لاکھ روپے کا بکنا تھا لیکن اب اس کے 2 سے ڈھائی لاکھ مل رہے ہیں۔
ملک میں آم کی پیداوار میں کل 73 فیصد حصہ پنجاب کا ہے جس میں 45 فیصد حصہ جنوبی پنجاب کے 5 اضلاع ملتان، رحیم یار خان، مظفر گڑھ، خانیوال اور وہاڑی کا ہے، اس سال آم کی پیداوار 45 فیصد متاثر ہوئی ہے اور ایکسپورٹ کوالٹی میں بھی کمی آئی ہے۔
زرعی ماہرین کہتے ہیں کہ آم کو موسمیاتی تبدیلیوں سے بچانے اور پانی کی قلت کے ہوتے ہوئے بہتر پیداوار کے لیے کاشتکاروں کو ٹرنچ ٹیکنالوجی اپنانا ہو گی۔
آم کے باغات کے مالکان اس سال پانی کی کمی کے باعث آم کی فصل بہتر نہ ہونے پر پریشان ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر حکومت ڈیزل، بجلی، کھاد اور اسپرے کی قیمتوں پر اعلان کردہ سبسڈی پر عمل درآمد کر دے تو کاشتکاروں کے نقصان میں کسی حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔