Time 17 جون ، 2022
دنیا

برطانیہ جولین اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کے لیے تیار

جولین اسانج نے 2010 میں وکی لیکس کے تحت لاکھوں دستاویزات جاری کی تھیں / اے پی فوٹو
جولین اسانج نے 2010 میں وکی لیکس کے تحت لاکھوں دستاویزات جاری کی تھیں / اے پی فوٹو

برطانیہ کی وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

برطانوی محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق جولین اسانج کے پاس اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کے لیے 14 دن کا وقت ہے۔

بیان میں بتایا گیا کہ اس مقدمے میں برطانوی عدالتوں نے جولین اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کے معاملے میں کوئی ناانصافی دریافت نہیں کی تھی اور نہ ہی یہ ثابت ہوا تھا کہ ایسا کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

برطانوی وزیر داخلہ کی منظوری پر وکی لیکس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جائے گی۔

بیان میں کہا گیا کہ یہ جنگ کا اختتام نہیں بلکہ نئی قانونی جنگ کا آغاز ہے، ہم قانونی نظام کے تحت ہائیکورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ جولین اسانج نے کچھ بھی غلط نہیں کیا، انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا اور وہ مجرم نہیں، وہ ایک صحافی ہیں اور انہیں اپنا کام کرنے کی سزا دی جارہی ہے۔

برطانوی فیصلے کے بعد جولین اسانج کی اہلیہ اسٹیلا نے لندن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ یہ ہمارے راستے کا اختتام نہیں، ہماری جنگ جاری ہے، ہم تمام راستوں کو استعمال کریں گے اور جولین اسانج کی رہائی تک جدوجہد ختم نہیں ہوگی۔

دوسری جانب آسٹریلیا کی نئی حکومت نے اس معاملے پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اس کا ماننا ہے کہ جولین اسانج کے مقدمے کو بہت طویل کھینچا گیا ہے اور اب اسے ختم کیا جانا چاہیے۔

آسٹریلیا کی وزیر خارجہ پینی وونگ نے کہا کہ ہم اس خیال کا اظہار امریکا اور برطانیہ کی حکومتوں کے سامنے کرتے رہیں گے۔

جولین اسانج کے کیس میں کب کیا ہوا؟

آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے کمپیوٹر پروگرامر جولین اسانج نے 2006 میں وکی لیکس کی بنیاد رکھی اور 2010 میں انہوں نے اس وقت عالمی سطح پر توجہ حاصل کی جب وکی لیکس نے سابق امریکی فوجی چیلسا میننگ کی جانب سے فراہم کردہ خفیہ دستاویزات شائع کیں۔

وکی لیکس نے تقریبا 7 لاکھ 50 ہزار کے قریب خفیہ معلومات افشا کیں جن میں عراق، افغان جنگ اور دیگر عالمی امور نمایاں ہیں۔

خفیہ دستاویزات سامنے آنے کے بعد امریکا نے جولین اسانج کے خلاف مجرمانہ فعل کی تحقیقات شروع کیں جس کے بعد انہوں نے سوئیڈن میں پناہ لے لی۔

مگر جولین اسانج کے خلاف سوئیڈن میں جنسی حملے کے 2 الگ واقعات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے تھے، جس پر  جولین اسانج نے 2012 میں لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں پناہ لینے کی درخواست دی تھی اور خود بھی سفارتخانے کے اندر ہی مقیم ہوگئے تھے تاکہ برطانوی پولیس انہیں سوئیڈن کے حوالے نہ کرسکے۔

انہیں ڈر تھا کہ اگر انہیں سوئیڈن کے حوالے کیا گیا تو وہاں سے انہیں امریکا بھیج دیا جائے گا۔

امریکا میں جولین اسانج کو جاسوسی کے الزام میں 175 سال قید کی سزا کا سامنا ہے۔

جولین اسانج 2019 میں ایکواڈور کے سفارتخانے سے اس وقت باہر نکلے جب سفارت خانے نے جولین اسانج کی پناہ ختم کرنے کا اعلان کیا۔

سفارتخانے سے باہر نکلنے پر لندن پولیس نے انہیں ضمانت سے بچنے کے الزام میں گرفتار کرلیا جس پر ایک عدالت نے قید کی سزا سنائی۔

 برطانوی ہائی کورٹ نے 2021 میں جولین اسانج کو امریکا کےحوالےکرنےکاحکم دیا تھا جس کے خلاف جولین اسانج نے برطانوی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

تاہم مارچ 2022 میں برطانوی سپریم کورٹ نے جولین اسانج کو عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔

اس کے بعد امریکا کے حوالے کرنے کے عمل شروع ہوا جس کی اب برطانوی وزیر داخلہ نے منظوری دے دی ہے۔

مزید خبریں :