Time 30 جولائی ، 2022
پاکستان

بجلی کے بلوں پر فکسڈ ٹیکس سے شہری پریشان، کے الیکٹرک نے خود کو بری الذمہ قرار دیدیا

کراچی سمیت ملک بھر میں دکانوں پر فکسڈ سیلز ٹیکس کے نفاذ نے مہنگائی کے مارے تاجروں کی مشکلات مزید بڑھا دی ہیں اور شہریوں کی جانب سے بجلی کے بلوں پر فکسڈ ٹیکس کے خلاف بھرپور آواز  اٹھائی جا رہی ہے۔ 

سوشل میڈیا پر کراچی کے ایک نوجوان کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ کے الیکٹرک کے ہیڈ آفس کے سامنے کھڑا کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کو بجلی کے بھاری بھرکم بل پر کوس رہا ہے۔

ویڈیو میں نظر آنے والا نوجوان کہہ رہا ہے کہ میں ان بدبختوں کے دفتر کے سامنے کھڑا ہوں جنہوں نے کراچی کے عام آدمی سے لیکر ہر ایک کو تنگ گیا ہے۔

جولائی 2022 کا ایک بل دکھاتے ہوئے نوجوان کا کہنا تھا کہ ایک دکان سالہا سال سے بند پڑی ہے اور اس کی میٹر ریڈنگ بھی زیرو ہے لیکن اس کا بل دیکھیں 7475 روپے آیا ہے۔

نوجوان نے کے الیکٹرک پر مزید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ہم اس لیے کما رہے ہیں، بیوی بچوں کو نہ کھلائیں، والدین کی دوائیں نہ لیکر جائیں، گھر والوں پر خرچ نہ کریں لیکن تمھارے اندھے کنویں میں جھونک دیں۔

متعلقہ نوجوان کا مزید کہنا تھا ہم جیسے گھریلو صارفین پر کے الیکٹرک نے ساڑھے 6 بجے والا پیک آور دوبارہ لگا دیا ہے، ایک یونٹ کو ان لوگوں سے 45 روپے تک پہنچا دیا ہے۔

اپنا نام سبحان بتاتے ہوئے نوجوان نے مزید کہا کہ میرے ایک دوست نے فریج اے سی کی دکان کھولی اس نے بتایا کہ میں نے 1200 روپے کی بجلی استعمال کی اور ان لوگوں نے 8 ہزار روپے کا بل بھیج دیا، کام نہیں چل رہا، نئی جگہ ہے جیب سے پیسہ لگانا پڑ رہا ہے، کہاں سے بھروں گا یہ بل۔

نوجوان کا کہنا تھا ان لوگوں کی ایک ہی رٹ ہے کہ لگا کر بھیج دیا ہے بھرنا پڑے گا، کون پوچھے گا ان (کے الیکٹرک) سے، شہباز شریف آپ وزیراعظم ہیں، جواب دو اور ان کو نکیل ڈالو، ہمارے خون پسینے کی کمائی ان کے اوپر پھینکنے کے لیے نہیں ہے، ہماری بھی ضروریات ہیں، کراچی والوں پر رحم کریں۔

ٹیکس لگانا کمپنی کے دائرہ اختیار میں نہیں:  ترجمان کے الیکٹرک

اس حوالے سے ترجمان کے الیکٹرک نے جیو نیوز کو بتایا کہ ٹیکس لگانا کمپنی کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے، ریگولیٹڈ اداروں کی حیثیت سے کوئی بھی ڈسٹری بیوشن کمپنی بشمول کے الیکٹرک ٹیکس لگانے یا ہٹانے کا اختیار نہیں رکھتی۔

ترجمان کے الیکٹرک نے مزید کہا کہ اگرچہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ٹیکس لگانے کا اختیار کس کے پاس ہے لیکن پھر بھی بعض عناصر اس معاملے میں اپنے مذموم مقاصد کے لیے تاجر برادری کو گمراہ کر رہے ہیں، درست پلیٹ فارمز تک پہنچنے سے اس معاملے میں مزید مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

کے الیکٹرک کے ترجمان نے مزید کہا کہ کے الیکٹرک کو بجلی کے بلوں پر عائد ٹیکسوں سے کوئی فائدہ نہیں ملتا اور متعلقہ اتھارٹی کی جانب سے ان ٹیکسوں کو ہٹانے پر بھی یوٹیلیٹی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ ٹیکس حکومت پاکستان کی جانب سے وفاقی بجٹ میں پاکستان فنانس ایکٹ 2022 کے تحت پورے ملک کے لیے لگائے گئے ہیں اور تمام پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں ان پر عمل درآمد کی پابند ہیں۔

ہمارا اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کسی کا کاروبار نہیں چل رہا یا میٹر بند ہے: ترجمان ایف بی آر 

دوسری جانب ترجمان ایف بی آر اسد طاہر کا اس حوالے سے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے مؤقف تھا کہ جب بھی آپ فکس ٹیکس میں چلے جاتے ہیں، کوئی بھی ایسی سہولت حاصل کر لیتے ہیں جو فکس ہو، مثلاً پی ٹی سی ایل کی 3000 روپے ماہانہ والی سہولت لے لیتے ہیں تو اس سے قطع نظر آپ ایک نے ایک کال کی یا 2000 کالیں کی، آپ کا بل 3000 روپے ہی آئے گا۔

اسد طاہر نے مزید بتایا کہ اسی طرح اگر کسی نے کوئی دکان لے رکھی ہے یا اس کا کاروبار چل رہا ہے یا میٹر نان ایکٹو ہے تو اس سے ہمارا کوئی سروکار نہیں ہے کیونکہ ہم لاکھوں صارفین کی کاروباری سرگرمیوں کو جا کر نہیں دیکھ سکتے۔

یاد رہے کہ کراچی میں تاجروں نے کے الیکٹرک کے بل میں آنے والا 6000 روپے کا فکسڈ سیلز ٹیکس دینے سے انکار کر دیا ہے اور اس حوالے سے تاجروں کا کہنا ہے کہ حکومت فی الفور فکسڈ سیلز ٹیکس کے احکامات واپس لے۔

مزید خبریں :