05 اگست ، 2022
خیبر پختونخوا کی سرکاری یونیورسٹیاں مالی بحران کا شکار ہو گئیں، ملازمین اب تک تنخواہوں اور الاؤنس سے محروم ہیں۔
سنگین مالی بحران نے خیبرپختون خوا کی بیشتر جامعات کو جکڑ رکھا ہے، سرکاری یونیورسٹیاں ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن کی ادائیگی نہیں کر پارہی ہیں۔
اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور، انجنیئرنگ یونیورسٹی پشاور، گومل یونیورسٹی اور چترال یونیورسٹی کی انتظامیہ کے پاس تنخواہوں کے پیسے ختم ہوگئے ہیں جس کے باعث ابھی تک ان جامعات کے ملازمین کو جولائی کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں جبکہ جامعہ پشاور نے ملازمین کی جولائی کی تنخواہوں سے کنونس الاؤنس بھی کاٹ لیا ہے۔
دوسری جانب انجینئرنگ یونیورسٹی کے گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین بھی تنخواہوں سے محروم ہیں۔
اگریکلچر یونیورسٹی پشاور کے وائس چانسلر ڈاکٹر جہاں بخت نے جیو نیوز کو بتایا کہ یونیورسٹی کے پاس ملازمین کو تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں تھے جس پر حکومت سے فنڈز کا مطالبہ کیا اور حکومت نے جولائی کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے فنڈز فراہم کیے۔
گومل یونیورسٹی کے ملازمین بھی تاحال تنخواہوں سے محروم ہیں، وائس چانسلر گومل یونیورسٹی ڈاکٹر افتخار احمد نے بتایا کہ یونیورسٹی مالی مشکلات سے دوچار ہے اور معاملات چلانے کیلئے ایک ارب روپے سے زیادہ کے فنڈز درکار ہیں۔
چترال یونیورسٹی انتظامیہ نے بھی اعلامیہ جاری کر کے ملازمین کو تنخوایں ادا کرنے سے معذرت کرلی ہے، یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق فنڈز نہ ہونے کے باعث ملازمین کو تنخواہیں ادا نہیں کی جا سکتی ہیں۔
چترال یونیورسٹی کے ترجمان نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی کے گزشتہ تین بجٹ منظور نہیں ہوئے جس کے باعث جامعہ شدید مالی بحران سے دوچار ہے، فنڈز کی کمی کے باعث اہم عہدوں پر تعیناتیاں بھی نہیں کی جا رہی ہیں۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جامعات پر سب سے بڑا بوجھ پینشنز کا ہے، یونیورسٹیاں اپنے محدود وسائل سے ماہانہ کروڑوں روپے کی پینشنز ادا کررہی ہیں۔
تاریخی درسگاہ اسلامیہ کالج پشاور ہر ماہ ایک کروڑ 25 لاکھ روپے سے زیادہ پینشنز کی مد میں ادا کررہا ہے، اسلامیہ کالج پشاور کو سالانہ 44 کروڑ سے زیادہ خسارے کا سامنا ہے۔
فیڈ ریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اسٹاف ایسو سی ایشن (فپواسا) کے مرکزی صدر ڈاکٹر جمیل چترالی نے جیو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت جامعات کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ اس وقت خیبر پختونخوا کی جامعات اربوں روپے خسارے میں ہیں جبکہ حکومت نے جامعات کیلئے بجٹ بڑھانے کے بجائے مزید کم کردیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وفاق میں تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت نے جامعات کا بجٹ 175 ارب سے کم کر کے 65 ارب روپے کیا جبکہ اس میں مزید ایک ارب روپے کی کمی کردی گئی ہے۔
ڈاکٹر جمیل چترالی نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد سندھ اور پنجاب نے صوبائی ایچ ای سی قائم کی تاہم خیبر پختونخوا میں اب تک یہ اختیار وفاق کے پاس ہے۔
فپواسا کے صدر نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں پہلے وائس چانسلرز کی تعیناتیاں سیاسی ہوا کرتی تھیں لیکن اس مرتبہ تو پیسے دے کر لوگ وائس چانسلر بنے ہیں جن کی نااہلی کی وجہ سے بھی جامعات کا برا حال ہے، انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت سے موجودہ یونیورسٹیز نہیں سنبھل رہی ہیں اور نئی جامعات کی منظوریاں دی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری جامعات کی فیسیں نجی جامعات سے بھی زیادہ ہیں جس کی وجہ سے طلبا کیلئے اعلیٰ تعلیم کا حصول مشکل ہوتا جارہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے گزشتہ بجٹ میں 6 جامعات کیلئے 2 ارب روپے مختص کیے جس میں 20 کروڑ روپے جامعہ پشاور کو جبکہ 10 کروڑ دیگر جامعات کو فراہم کیے گئے تاہم باقی پیسے اب تک نہیں دیے جس سے جامعات مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔