01 ستمبر ، 2022
اسپتال نہیں، راشن نہیں، دوائیں نہیں، کچھ ہے تو بے بسی اور لاچاری ہے، بلوچستان کا ضلع نصیرآباد سیلاب سے برباد ہے اور خواتین کے مسائل برداشت کی حدوں سے گزر گئے ہیں۔
کہیں کوئی ماں اپنے بیمار بچوں کو لیے سڑکوں پر سرگرداں ہے تو کہیں کوئی حاملہ اس بات کی منتظرکہ کوئی اُسے جلدی سے اسپتال لے جائے، بیواؤں کی حالت اور بھی زیادہ خراب ہے، بے چاری خوراک، رہائش اور دواؤں کے لیے سرکاری دفاتر کے آگے ڈیرہ ڈالے بیٹھی ہیں۔
نصیر آباد کو برباد کرنے والا سیلاب پانی کے ساتھ بے گھری، بھوک، پیاس اور بیماریوں کے ریلے بھی لایا ہے، ہر طرف پانی، کیچڑ اور ان میں ڈوب کر مرنے والے مویشیوں سے اُٹھنے والی بدبو اور جلدی امراض پھوٹ پڑے ہیں۔
کسی خاتون نے بیمار بیٹی کو علاج کے لیے اوستہ محمد جانا ہے مگر علاج کے پیسے نہیں ہیں جبکہ کسی بچی کا باپ کچھ دوائیں لے آیا ہے مگر یہ ناکافی ہیں۔ کچھ ایک ایسی حاملہ خواتین بھی ہیں جن کے چہرے سے تکلیف عیاں ہے اور اوپر سے سیلاب ان کا گھر بار بہا کر ساتھ لے گیا ہے۔
نصیرآباد کے متاثرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے دورے کے باوجود ضلع میں نہ تو انتظامیہ متحرک ہوئی اور نہ ہی ان تک حکومتی امداد پہنچی ہے۔