17 ستمبر ، 2022
بلوچستان اور سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے منتقل ہونے کے لیے کشتیاں نہ ہونے کے باعث لوگ کڑاھیوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
سندھ میں میہڑ اور سپریو بند کے درمیان سیلابی پانی میں ڈوبے دیہات کے مزید 400 مکانات گر گئے۔
قمبر شہداد کوٹ کی تحصیل وارہ سے لے کر سیہون تک اب بھی کئی کئی فٹ پانی موجود ہے، ایک طرف گندا پانی جمع ہے تو دوسری جانب گرمی اور حبس کی شدت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے جس کے باعث ہیضے، ڈائیریا اور مچھروں کی بہتات سے ملیریا اور وبائی بیماریاں جنم لینے لگی ہیں۔
ٹھٹھہ میں بچوں سے لے کر بڑوں تک متاثرین نڈھال ہیں جبکہ جوہی میں چھ روز سے بجلی کی بندش سے متاثرین دُہری اذیت میں مبتلا ہیں۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ گرمی اور حبس سے بچے بوڑھے مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، فوری طور پر بجلی بحال کی جائے۔
ادھر پڈعیدن میں تاحال سیکڑوں دیہات کا زمینی رابطہ منقطع ہے، کشتیاں نہ ہونے کے باعث متاثرین بڑی کڑاہیوں میں سفر پر مجبور ہیں۔
محکمہ لائیو اسٹاک سندھ کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں بارشوں اور سیلاب سے مختلف اضلاع میں 1 لاکھ 60 ہزار کے قریب جانور بھی مر گئے۔
بلوچستان کے شہروں نصیر آباد، جعفر آباد اور صحبت پور کے مختلف علاقوں میں پانی کی نکاسی اب تک نہ ہو سکی، مختلف علاقوں میں اب بھی کئی فٹ پانی موجود ہے اور متاثرین کو وبائی امراض نے بھی گھیر لیا۔
جعفرآباد میں ملیریا اور ڈینگی سے دو بچے جاں بحق ہوگئے ، نہ کھانے کو روٹی ہے، نہ پینے کو پانی ہے اور نہ بیماری سے لڑنے کو ادویات ہیں۔