02 اکتوبر ، 2022
کراچی اور اسٹریٹ کرائمز کا نام اب لازم و ملزوم ہو گیا ہے، کہیں پر کراچی کی بات ہو اور اسٹریٹ کرائمز کا ذکر نہ آئے ایسا ہو نہیں سکتا۔
کراچی آپریشن کے آغاز سے قبل کی بات کی جائے یا پھر آپریشن کے بعد کی، اسٹریٹ کرائم ایک ایسا جرم ہے جس پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے، وزیر اعظم ہوں، وزیر اعلیٰ یا پھر دیگر اہم فورم، ہر جگہ اس کے تدارک کی بات کی جاتی ہے لیکن عملی طور پر اس کے لیے تاحال کچھ بھی نہیں کیا جاسکا۔
اگر کراچی کا کوئی شہری یا مقام اب تک اسٹریٹ کرمنلز سے محفوظ ہے تو پھر یہ معجزہ ہی کہلائے گا۔ گزشتہ 10 سال کے دوران اس شہر میں اگر کسی شے کو زوال آیا ہے تو وہ ہے قانون کی حکمرانی اور کسی چیز نے رج کے ترقی کی ہے تو وہ بجا طور پر اسٹریٹ کرائم ہیں۔ دس سالہ اعدادوشمار بتائیں تو سب سے پہلے نمبر آتا ہے راہزنوں کے محبوب ہدف موبائل فونز کا۔
2013 میں 19365 موبائل فونز چھینے یا چوری کیے گئے اور گزشتہ سال یہ تعداد 56324 تھی، رواں سال کے 8ماہ میں شہریوں کو اب تک 38ہزار موبائل فونز سے محروم کیا جا چکا ہے۔
لٹیروں کا دوسرا ہدف شہریوں کی موٹرسائیکلیں ہیں، کراچی آپریشن سے قبل 2013 میں 23175 شہریوں کو موٹرسائیکلوں سے محروم کیا گیا، گزشتہ سال یہ تعداد تھی 50 ہزار 841 اور اس سال کے 8 ماہ میں اب تک یہ تعداد 37ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔
شہر قائد میں جرائم بڑھتے جا رہے ہیں لیکن ان کا تدارک مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے، گزشتہ دنوں جیونیوز سے خصوصی گفتگو میں کراچی پولیس چیف جاوید اوڈھو نے بتایا تھا کہ منشیات اور اسٹریٹ کرمنلز کا گٹھ جوڑ ہونے کے علاوہ کراچی کا سماجی اور ثقافتی ماحول تبدیل ہو گیا ہے اور بہت سے نئے لوگ آگئے ہیں، اس وجہ سے بھی کراچی کے جرائم پر خاصا اثر پڑا ہے اور اسٹریٹ کرائمز میں مزاحمت اب مہلک ہوتی جا رہی ہے۔
کراچی پولیس کی قیادت اس پر متفق نظر آتی ہے کہ اسٹریٹ کرائمز کی اصل وجوہات ہیں سیف سٹی منصوبے میں تاخیر، منشیات اور جرائم پیشہ افراد کا گٹھ جوڑ، کاروبار یا نوکریوں کا نہ ہونا، بڑھتی ہوئی غربت اور عادی جرائم پیشہ افراد کا اس جرم میں گرفتاری کے ضمانت لینا اور ضمانت کے بعد پھر وارداتوں میں لگ جانا لیکن المیہ یہ ہے کہ ہر سطح پر ادراک ہونے کے باوجود اس کے ٹھوس حل کے لیے مخلصانہ کوششیں کہیں نظر نہیں آتیں۔