14 اکتوبر ، 2022
دنیا میں درجہ حرارت میں اضافے سے سنگین موسمیاتی تبدیلیاں ہورہی ہیں اور اس مسئلے کی روک تھام کے لیے امریکا نے سورج کی روشنی کو منعکس کرنے کے منصوبے پر غور شروع کردیا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کی جانب سے 5 سالہ تحقیق کے منصوبے پر غور کیا جارہا ہے جس میں زمین تک پہنچنے والی سورج کی روشنی کی مقدار کو کم کرنے کے مختلف طریقوں کی جانچ پڑتال کی جائے گی، تاکہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے اثرات کو کم کیا جاسکے۔
اس طریقہ کار کو سن لائٹ ریفلیکشن یا سولر جیو انجینئر نگ بھی کہا جاتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے آفس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پالیسی کے مطابق اس تحقیق میں مختلف طریقوں جیسے کرہ ہوائی میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کے ایرو سولز کے چھڑکاؤ کے ذریعے سورج کی روشنی کو واپس خلا میں پلٹانے کا تجزیہ کیا جائے گا جبکہ یہ بھی دیکھا جائے گا اس طرح کے طریقہ کار سے زمین پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
اس طرح کے مختلف طریقوں جیسے زمین کی فضا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کے چھڑکاؤ کے بارے میں معلوم ہے کہ اس سے ماحول اور انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، مگر سائنسدانوں اور موسمیاتی رہنماؤں کو زمین کے درجہ حرارت میں اضافے سے ہونے والی ممکنہ تباہی کی زیادہ فکر ہے۔
سن لائٹ ریفلیکشن کے حوالے سے دنیا میں تحقیق تو ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے مگر وائٹ ہاؤس کی جانب سے باضابطہ طور پر اس پر غور کیا جارہا ہے حالانکہ اب تک اسے سائنس فکشن ہی سمجھا جاتا رہا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ کیتھ نے 1989 میں اس موضوع پر کام شروع کیا تھا اور ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ سورج کی روشنی کو منعکس کرنا موسمیاتی تبدیلی کا حل نہیں بلکہ اس کے لیے زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی لانا ضروری ہے۔